احمد علی شاہ

والدین: خالد محمود(مرحوم) اور جمیلہ کوثر

 

بھائی: 12 سالہ محمد احمد

عمر : 13 سال  کلاس: 8

احمد علی شاہ

احمد اپنی عمر سے زیادہ پختہ ذہن رکھتا تھا۔ اس کی والدہ کے بقول شاید اس کی وجہ محض چار سال کی عمر میں والد سے محروم ہونا ہے۔احمد  اپنی عمر کے دوسرے بچوں کے برعکس والدہ سے کسی قسم کا مطالبہ نہیں کرتا تھا۔ حتیٰ کہ ریستوران میں بھی وہ مینو سے ارزاں ڈش کا انتخاب کرتا کیونکہ وہ اپنی تنہا والدہ پر مالی بوجھ ڈالنے کے خلاف تھا۔

 

اس سب کے باوجود احمداور زندگی سے مطمئن دکھائی دیتا۔ پڑھائی میں ذہین احمد کی آواز بھی سریلی تھی۔ اسے اکثر و بیشتر نعت خوانی کیلئے مدعو کیا جاتا۔ آٹو انجینئر بننے کا خواہش مند احمد کار ڈیزائنگ میں مشغول رہتا اور اپنی والدہ کو بتاتا کہ ایک دن وہ ان کاغذی ڈیزائنز کو حقیقی رنگ دے گا۔ مزید

اذان تورے لے

والدین: میجر (ر) سہیل الرحمان اور ضلِ ہما گل سہیل

 

بہن/بھائی: 19 سالہ حیان ننگایالے، 17 سالہ حسان بارے لے، 14 سالہ امن گل سہیل اور8 سالہ وادن نمیالے

عمر:13 سال  کلاس:9

اذان تورے لے

اذان اپنے والد کی طرح پاکستان فوج میں شمولیت کی خواہش رکھتا تھا۔ اذان کو پالتو جانوروں کا شوق تھا۔ اس کے والد نے بتایا کہ جب اذان شہید ہوا تو ناصرف اس کا پالتو کتا افسردہ ہوگیا بلکہ اس نے اپنے مالک کیلئے آنسو بھی بہائے اور کئی روز تک کھانا بھی نہیں کھایا۔

 

کرکٹ کے شوقین اذان اپنے والد کو دوستوں کے ساتھ کرکٹ ٹورنامنٹ منعقد کرنے پر بھی زور دیتا۔ اذان اپنے والد کا انتہائی قریبی اور بیٹا کم اور دوست زیادہ تھا۔ اذان ہمیشہ مسکراتے ہوئے گھر میں داخل ہوتا۔ بہادر اذان کے اہل خانہ کو اس پر فخر ہے۔ تاہم، ان کی آنکھوں میں چھپے آنسو صاف بتاتے ہیں کہ کس طرح اس کے چلے جانے سے سب کی زندگی بدل کر رہ گئی۔ مزید

 

فہد حسین

 

والدین: حسین اور سیما نواب

عمر: 13 سال  کلاس: 8

فہد حسین

فاہد کے والدین کیلئے وہ خداوند کا ایک تحفہ تھا۔ فاہد اکلوتا ہونے کے ناطے اپنے والدین کی آنکھوں کا تارا تھا۔ فاہد کے والدین نے صرف اس کی اچھی تعلیم کیلئے گاؤں سے پشاور کا رخ کیا۔

 

ایئر فورس پائلٹ بننے کے خواہشمند فاہد کو کھیلوں بالخصوص باسکٹ بال اور کرکٹ کا بہت شوق تھا۔ وہ اسکول کی جانب سے کھیلنے کے ساتھ ساتھ محلے کی ٹیم میں بھی شامل تھا۔ فاہد اکثر اللہ تعالیٰ سے ایک بھائی کی دعا مانگتا تاکہ وہ اس کے ساتھ کھیل سکے۔ فاہد کے والدین اس کے جانے کے بعد ٹوٹ چکے ہیں۔ مزید

 

گل شیر

والدین: محمد ناصر گل اور شہناز

 

بہن/بھائی: 12 سالہ ایمان، 10 سالہ وردا ناصر، 7 سالہ خوش بخت ناصر اور 4 سالہ وریشا ناصر

عمر: 13 سال  کلاس: 8

گل شیر

گل شیر ایک اچھا طالبعلم تھا۔ وہ اپنے اسکول میں ہاﺅس کیپٹن تھا اور ڈاکٹر بننا چاہتا تھا۔ وہ ایک معروف ہارٹ سرجن بننے کے ساتھ ایک ہسپتال کھولنا چاہتا تھا جہاں مریضوں کا مفت علاج کیا جاسکے۔ گل شیر کو فٹ بال کھیلنا پسند تھا اور اکثر وہ اپنے فٹبال شوز اسکول لے جاتا تھا۔

 

اس کی والدہ کے مطابق وہ خاص طور پر سلیقے سے رہنا پسند کرتا تھا اور کسی مہذب شخص کی طرح لباس پہنتا تھا۔ گل شیر کو طوطے پسند تھے مگر اس کے پاس کوئی پالتو جانور نہیں تھا کیونکہ وہ انہیں پنجروں میں رکھنا پسند نہیں کرتا تھا۔ اس کی یادداشت بہترین تھی اور اپنے دوستوں اور رشتے داروں میں ہمیشہ ایسا فرد ثابت ہوتا تھا جسے دیگر لوگوں کی تاریخ پیدائش یاد رہتی تھی۔ مزید

 

حامد علی خان

والدین: شیر علی خان اور فرمان نسا

 

بہن/بھائی: 16 سالہ سدرہ علی خان، 13 سالہ جواد علی خان اور 4 سالہ ثنا علی خان 

عمر: 13 سال  کلاس: 8

حامد علی خان

حامد دھیمے مزاج کا نرم دل بچہ تھا۔ وہ پڑھائی میں بہترین اور اسکول میں سب کی آنکھوں کا تارا تھے۔ اسے اپنی چھوٹی بہن ثنا سے بہت پیار تھا۔ وہ ڈاکٹر بن کر غریبوں کیلئے ایک ہسپتال کھولنے کا آرزو مند تھا۔

 

اسے جانوروں سے بھی خاص لگاؤ تھا۔ بھائی جواد نے بتایا کہ ایک مرتبہ حامد سڑک پر پڑے زخمی کتے کے بچے کو گھر لے آیا پھر اسے گھر سے دور جانوروں کے کلینک  لے کر گیا اور اس کی دیکھ بھال کی۔ حامد کے اہلخانہ کا کہنا ہے کہ اس کے بغیر زندگی گزارنا بہت تکلیف دہ ہے۔ مزید

 

حماد ملک

والدین: طاہر انیس ملک اور ارم

 

بھائی: 11 سالہ کاشف انیس ملک 

عمر: ساڑھے 13 سال  کلاس: 8

حماد ملک

حماد کو گھوڑوں سے عشق تھا اور وہ ایک بہترین گھڑ سوار تھا۔ اس کے انکل کے پاس پنجاب کے گاﺅں میں متعدد گھوڑے تھے جن کی مدد سے حماد گھڑ سواری کی مشق کرتا تھا۔ حماد نے لاہور میں گھڑسواری کے مقابلے میں شرکت کرکے ٹرافی بھی جیتی۔

 

اس کے دیگر مشاغل میں پرانے سکے اور نوادرات جمع کرنا قابل ذکر ہے۔ اس نے ان سب کو گھر کی میزوں اور الماریوں میں سجا رکھا تھا۔ مزید

محمد اظہر نصیر

والدین: محمد نصیر اور مسرت بی بی

 

بہن/بھائی: 13 سالہ صبا نصیر، 12 سالہ نعمان نصیر اور 11 سالہ کنول نصیر 

عمر: 13 سال  کلاس: 10

محمد اظہر نصیر

اظہر ڈاکٹر بن کر غریبوں کو مفت علاج معالجہ فراہم کرنے کا خواب دیکھتا تھا۔ اسکول میں بایولوجی اس کا پسندیدہ مضمون تھا اور وہ ہمیشہ امتحان میں 90 فیصد سے زائد نمبر حاصل کرتا تھا۔ اس نے گزشتہ سال 12 دسمبر کو ڈیٹنشن  امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی، جس پر اس کے اہلخانہ نے سانحہ والے دن یعنی 16 دسمبر کو ایک تقریب منعقد کرنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔

 

اظہر نرم دل رکھتا تھا۔ ہم عمر بچوں کے برعکس اسے کھیل کود کے بجائے تاریخ کی کتابوں سے دلچسپی تھی۔ کھیلوں میں اس کی دلچسپی ریسلنگ اور فٹبال دیکھنے تک محدود تھی۔ مزید

 

رضوان سریر

والدین: لیفٹیننٹ کرنل سریر خان اور نرگس بیگم

 

بہن/بھائی: 19 سالہ نعمان سریر اور 18 سالہ سلمان سریر

عمر: 13 سال  کلاس: 8

رضوان سریر

چارسدہ سے تعلق رکھنے والا رضوان کرکٹ کا بہت بڑا مداح تھا۔ اس کے بھائی نعمان نے بتایا کہ کرکٹ رضوان کا محبوب مشغلہ تھا اور وہ دونوں  اکثر اپنے کمرے میں کرکٹ کھیلتے تھے۔ نعمان کہتے ہیں کہ بھائی کے گزر جانے کے بعد اب ان میں دوبارہ کھیلنے کی ہمت نہیں رہی۔ رضوان کھانے پینے بالخصوص فاسٹ فوڈ کا شوقین تھا۔

رضوان کے والد نے بتایا کہ ایک دن رضوان کو صحن سے دو ہزار روپے ملے۔ اس وقت رضوان دوسری کلاس میں تھا لیکن وہ فوراً ہی باہر موجود گارڈ کے پاس گیا اور انہیں پیسے دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی پیسوں کا پوچھے تو اسے دے دیں۔ رضوان کے والدین  اپنے بیٹے کے گزر جانے پر بہت دکھی ہیں، مگر وہ اس کے زندگی گزارنے کے انداز پر فخر بھی کرتے ہیں۔ مزید

 

وہاب الدین

والدین: کبیر الدین اور رخشندہ

 

بہن/بھائی: 23 سالہ ثناء، 21 سالہ شہاب الدین 

عمر: 13 سال  کلاس: 8

وہاب الدین

وہاب کے والد کے لیے اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کو کھونا برداشت سے باہر ثابت ہوا۔ سانحہ پشاور کے دو ماہ بعد ان کی صحت خراب ہونا شروع ہوئی اور وہ دنیا سے چل بسے۔ وہاب کی والدہ بتاتی ہیں کہ ان کا بیٹا علم دوست بچہ تھا جو رات گئے تک کام کرتا رہتا۔ وہ سائسندان بننا چاہتا تھا۔ وہ اپنے والد کے قریب تھا اور اکثر ان کے ساتھ سائنس اور تحقیق کے حوالے سے اپنے شوق کے بارے میں تبادلہ خیال کرتا۔

 

یہ خاندان اس المیے کے بعد بکھر کر رہ گیا۔ وہ اپنے واحد کمانے والے سے بھی محروم ہوگیا اور زندگی مشکل ہوگئی۔ وہاب کی والدہ اب اچھے دنوں کے لیے دعائیں کرتی ہیں۔ مزید

 

واصف علی خٹک

والدین: کیپٹن علی خان خٹک اور شاہ نون

 

بہن/بھائی: 24 سالہ عاصم، 22 سالہ لائبہ، 20 سالہ ثاقب اور 19 سالہ آصف سراج 

عمر: 13 سال  کلاس: 8

واصف علی خٹک

واصف پانچ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا اور اسی وجہ سے اس کے تمام تر مطالبات اور خواہشات کو والدین اور بہن بھائی پوری کرتے تھے۔ اسے جانوروں سے محبت تھی۔ وہ ڈاکٹر بننے کا خواہشمند تھا۔ وہ اپنے گاﺅں غنڈی میراہ خان خیل خٹک میں کام کرنا چاہتا تھا۔ وہ اکثر اپنے بھائی کو اپنے خواب کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتا کہ ایم بی بی ایس ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ اپنے گاﺅں میں ایک مفت طبی مرکز قائم کرے گا۔

 

اس کے والدین اپنے چھوٹے بیٹے کے بارے میں بات کرتے ہوئے اپنے آنسو روک نہیں سکے۔ وہ اسے بہت یاد کرتے ہیں اور خواہش کرتے ہیں کہ کاش وہ ان کے ساتھ ہوتا۔ مزید

 

یاسر اللہ

والدین: حوالدار نصیر اللہ اور رضیہ بی بی

 

بہن/بھائی: 12 سالہ طاہر اللہ(اے پی ایس طالب علم)، 10 سالہ منشا نصیر، 7 سالہ انشا نصیر اور 3 سالہ الیزے نصیر

عمر: 13 سال  کلاس: 8

یاسر اللہ

وقت کا پابند یاسر اللہ پہلے تو ڈاکٹر بننے کا خواہش مند تھا لیکن پھر کیڈٹ کالج رزمک میں داخلہ ملنے پر اس نے اپنا ذہن تبدیل کرکے فوجی بننے کا فیصلہ کرلیا۔ چترال سے تعلق رکھنے والا یاسر کھیلوں کا شوقین اور کرکٹ، بیڈمنٹن اور فٹبال میچوں میں بہترین پرفارمنس پر کئی تمغہ یافتہ تھا۔

 

یاسر کے والد بتاتے ہیں کہ وہ جب بھی اپنے بیٹے کے دوستوں سے ملتے ہیں انہیں یاسر کی یاد آتی ہے۔ یاسر کے بھائی طاہر اللہ نے بتایا اسے چپس کھانے کا بہت شوق تھا۔ دونوں اپنے کزنز کے ہمراہ چپس خریدنے جاتے اور خوب باتیں کرتے۔ یاسر کے بہترین دوست اس کے کزن سید ذوالقرنین شاہ تھے اور دونوں  نے سانحہ کے دن آڈیٹوریم میں ایک ساتھ جان دی۔ مزید