محمد سمیع 

والدین: شمس الرحمان اور آسیہ بی بی

 

بہن/ بھائی:27 سالہ سعیدہ ، 23 سالہ زینب، 18 سالہ رانی، 18 سالہ امین اللہ، 16 سالہ سدرہ گل اور 8 سالہ عتیق الرحمان

 

عمر: 22 

محمد سمیع 

سمیع نے انتہائی غربت کی وجہ سے کم عمر ی میں کام کرنا شروع کر دیا تھا۔

سمیع کے والد کو کینسر تھا، جس کی وجہ سے انہوں نے کم عمری میں اہل خانہ   کی دیکھ بھال اور والد کے علاج کیلئے ملازمت شروع کر دی۔

سمیع کے والد 2000 میں انتقال کر گئے۔ وہ پچھلے آٹھ سالوں سے آرمی پبلک سکول میں ملازمت کر رہے تھے۔

سمیع کی والدہ نے بتایا کہ دوسرے بچوں کے برعکس وہ  بھرپور  بچپن نہ گزار سکے اور حالات کی وجہ سے ان کے کمزور کاندھوں پر گھر والوں کی ذمہ داری آن پڑی۔

 

مزید

 

احسان اللہ

والدین: زین اللہ اور سلیمہ بی بی

 

بچے: 3 سالہ یاسر اللہ، 5 ماہ کا محمد یوسف

 

عمر: 22 

احسان اللہ

احسان اللہ نے سانحہ سے صرف دس دن قبل ہی سکول میں ملازمت اختیار کی تھی۔

 

اس بدقسمت دن احسان اللہ نے 40 زخمی بچوں کو ایمبولنس منتقل کرنے میں مدد کی ،لیکن   دہشت گردوں کی فائرنگ کی زد میں آ گئے۔

 

وہ  اپنے بچوں کو اِسی سکول میں تعلیم دلانے  اور ڈاکٹر بنانے کے خواہش مند تھے۔

 

احسان اللہ کے اہل خانہ بتاتے ہیں کہ وہ ایک ذمہ دار اور مخلص شخص تھے، جو  اپنے پیاروں کا خیال رکھتے۔

مزید

 

حفصہ خوش

والد: پروفیسر خوش محمد

 

بہن/بھائی: 27 سالہ محمد انس خان، 23 سالہ جویریہ 

عمر: 23

حفصہ خوش

ہونہار اور پرعزم حفصہ نے نومبر، 2013 میں آرمی پبلک سکول میں شمولیت اختیار کی۔

 

حفصہ کے بھائی انس انہیں  انتہائی نفیس اور ذمہ دار بہن کے طور پر یاد کرتے ہیں۔

اپنی والدہ  کے انتہائی قریب حفصہ  کی منگنی ہو چکی تھی۔

 

حفصہ کی ایک قریبی دوست سحر بتاتی ہیں کہ وہ ہنس مکھ اور سب کی مدد کرنے والی تھیں۔

 

مزید

 

محمد حسین

والدین: شمشیر خان اور سائرہ بی بی

 

بچے: 7 سالہ حنا، 5 سالہ اقرا اور 3 سالہ انیسہ

عمر: 24

محمد حسین

محمد حسین آرمی پبلک اسکول میں بطور مالی 7 سال سے فرائض انجام دے رہے تھے۔ اسکول حملے میں ہلاکت کے بعد محمد حسین کے بھائی ناہید خان کو نوکری کی پیشکش کی گئی جو انہوں نے قبول کرلی۔

 

ناہید کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے بھائی سے متعلق اس کے ساتھ کام کرنے والوں سے بہت کچھ پتہ چلا، جیسے کہ وہ ایک ملنسار اور سچے انسان تھے۔

 

حسین ایک محنتی شخص تھا، ان کے بھائی انہیں یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں وہ اسکول میں باغبانی کے بعد وہ گھر آتے تھے اور پھر کھیتوں میں بطور مالی کام کرنے چلے جاتے تھے۔

 

مزید

 

سعدیہ گل خٹک 

والدین: گل شہزاد خٹک اور زلیخہ بی بی

 

بہن/ بھائی: ہمایوں شہزاد، عامر شہزاد، عارف شہزاد، عاصم شہزاد، طیبہ گل، عظمی گل

عمر: 24

سعدیہ گل خٹک 

آرمی پبلک سکول میں پانچ مہینوں سے انگریزی پڑھانے والی  سعدیہ  تفریح پسند خاتون تھیں۔

 

سعدیہ ہمیشہ  بڑے فیصلوں سے قبل اپنے والدسے، جو خود ایک پروفیسر ہیں، رہنمائی حاصل کرتیں۔

 

سعدیہ کی دوستوں نے بتایا کہ وہ ان سے  مل کر باتیں  کرنا پسند کرتیں۔ سب سہیلیاں  روزانہ ملتیں اوراکھٹی واک کیلئے جاتیں۔

 

سعدیہ کے طالب علموں نے بتایا کہ وہ  اپنے مضمون پر مکمل دسترس رکھنے والی ایک شاندار ٹیچر تھیں۔

سعدیہ کے اہل خانہ روز انہیں یاد کر کے دکھی ہوتے ہیں۔

مزید

مدثر

والدین: مسٹر اور مسز محمد خان

 

بہن/بھائی: شیر خان، انس خان، عمر خان، گلناز ، افشاں اور فاطمہ

 

عمر: 25

  مدثر

آرمی پبلک سکول کے لیب اسسٹنٹ مدثر کلینکل پیتھالوجی  میں ڈپلوما  ہولڈر اور پشاور یونیورسٹی سے  پشتو میں ماسٹرز تھے۔

مدثر اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑے اور  فیملی کے واحد سہارا تھے۔ اسی وجہ سے انہیں نے اپنا آبائی علاقہ وادی سوات چھوڑا اور روزگار کیلئے پشاور منتقل ہوئے۔ وہ اکثر اپنے بہن بھائیوں کو فاسٹ فوڈ ریستوراں لے جاتے ۔

سانحہ سے محض 15 دن قبل ان کی منگنی ہوئی تھی۔  پشتو شاعری کا شغف رکھنے والے مدثر اکثر اپنے لکھے اشعار کو سوشل میڈیا پر بھی شیئر کرتے۔

مزید

 

حاجرہ شریف

والدین: محمد شریف اور اسرار بی بی

بہن/بھائی: رومن نساح، محمد امین، بی بی آمنہ، ابرار الامین، ثمینہ پروین، شاہد امین

عمر: 28

حاجرہ شریف

بطور ایک کیمسٹری ٹیچر حاجرہ کلاس کو موثر انداز میں سنبھالنا باخوبی جانتی تھیں۔ ساتھی ٹیچرز  کے مطابق، اپنے  مضمون  کی ماہر، طالب علموں کی مددگار اور دھیمے مزاج  کی حاجرہ نے بہت کم وقت میں خود کو منوا لیا تھا۔

 

حاجرہ نے خشک اور بورنگ سمجھے جانے والے مضمون کیمسٹری کو طالب علموں کیلئے اس حد تک دلچسپ بنا دیا تھا کہ وہ کبھی ان کی کلاس سے غیر حاضر نہیں ہوتے تھے۔

 

مزید

 

بینش عمر

شوہر: عمر زیب بٹ

 

بچے: 5 سالہ حبیبہ عمر، 3 سالہ آنیہ عمر، ایک سالہ عفاف عمر 

عمر: 30

بینش عمر

ایک پیار کرنے والی بیوی اور دیکھ بھال کرنے والی ماں بینش کی زندگی کا مقصد ٹیچنگ تھا۔ انہوں نے اکتوبر 2013 میں آرمی پبلک سکول میں کام شروع کیا۔

 

عمر نے بتایا کہ کس طرح بینش اپنی فیملی اور ساس ، سسر کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ ہر کام تندہی سے وقت پر کرتیں۔

 

عمر کے مطابق یہ بینش کی مستقل مزاجی  ہی تھی جس کی وجہ سے پوری فیملی ڈسپلن برقرار رکھتی۔

 

مزید

 

محمد بلال

والد: پرویز شاہ

 

بچے: ساڑھے تین سالہ عباس ، چھ ماہ کا حنان

 

عمر: 32

محمد بلال

بلال کی بیوی امید سے تھیں جب سانحہ  پشاور پیش آیا اور وہ دنیا سے رخصت ہوئے۔

بلال کی بیوی نے نومولود کا نام حنان رکھا کیونکہ یہ نام مرحوم کو بہت پسند تھا۔

دہشت گردوں نے انہیں  سکول کے پچھلے راستے  سے بچوں کو باہر نکالتے دیکھ کر گولیوں کو نشانہ بنا ڈالا۔

بلال ایک شفیق باپ تھے اور وہ اپنے بیٹے عباس کو ڈاکٹر بنانے کا خواب دیکھتے تھے۔

وہ ایک اچھے کھلاڑی تھے اور اکثر آرمی پبلک سکول کے بچوں کے ساتھ کرکٹ کھیلتے۔

 

مزید

 

سحر افشاں 

والدین: نور رازق (مرحوم) اور شمیم اختر

عمر: 33

سحر افشاں 

سانحہ والے دن سحر  طالب علموں کو سکول سے باہر نکالنے میں مدد کر رہی تھیں جب دہشت گردوں نے انہیں  پکڑ لیا۔

انہوں نے 2006 میں بطور اردو ٹیچر سکول میں شمولیت اختیار کی۔  پشاور یونیورسٹی سے  اردو میں ماسٹرز سحر  ایم فل کر رہی تھیں۔

خلوص اور سخت محنت کی وجہ سے انہیں جلد ہی  سکول کے سینئر سیکشن میں پروموٹ کر دیا گیا تھا۔

وہ اپنے خاندان کیلئے ایک رول ماڈل تھیں اور بہن بھائی بھی   ان جیسا بننا چاہتے ہیں۔

 

مزید

 

فرحت بی بی

 

بچے : 18 سالہ سید ثروت علی شاہ اور 15 سالہ سید باقر نقی 

عمر: 39

فرحت بی بی

ثروت بی بی کے نئے گھر میں ایک واضح خالی پن محسوس کیا جاسکتا ہے جو مکمل تو ہوگیا ہے مگر پھر بھی بہت زیادہ نامکمل ہے۔ فرحت بی بی کے شوہر عابد علی شاہ اور بیٹے باقر اور ثروت علی شاہ اب تک دکھ سے نڈھال ہیں جو اپنی زندگیوں سے چلی جانے والی آہنی عزم رکھنے والی مضبوط سپر ویمن کی یادیں دہراتے ہوئے اشک بہانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

فرحت کھانا پکانے میں زبردست مہارت رکھتی تھیں اور اپنے شوہر اور بیٹوں کے لیے نت نئے پکوان بناکر لطف اندوز ہوتی تھیں۔ انہیں پکنکس اور دوروں پر جانے کا شوق تھا اور اکثر وہ اپنے خاندان کے لیے باہر سیر کے لیے جانے کا انتظام کرتی تھیں۔

 

مزید

 

صائمہ زریں

شوہر: طارق سعید

والد: انور جمال

عمر: 39

صائمہ زریں

صائمہ زریں پچھلے 17 سالوں سے آرمی پبلک سکول میں انگریزی پڑھا رہی تھیں۔

وہ ایجوکیشن میں ایم فل کے بعد   پی ایچ ڈی کر رہی تھیں۔

دو بچیوں کی ماں صائمہ ایک  مثالی بیوی، قابل احترام ٹیچر اور شاندار والدہ تھیں۔

صائمہ کے طالب علموں کے مطابق نرم خو اور دھیمے مزاج کے باوجود وہ ہر وقت نظم و ضبط  کا خاص خیال رکھتیں۔

سانحہ کے وقت صائمہ زخمی بچوں کی مدد کیلئے آڈیٹوریم کی جانب دوڑیں ، مگر اچانک ان کا سامنا ایک حملہ آور سے ہو گا۔

 

مزید

 

اکبر زمان 

اہل خانہ: بی بی رابعہ(بیوہ)، طاہر زمان،انوز زمان، محمد زمان اور احمد خان

عمر: 40

اکبر زمان 

بی بی رابعہ کہتی ہیں کہ ان کے شوہر بہت اچھے انسان تھے۔نرم خو اکبر ہمیشہ اپنے بچوں اور کزنز کو تنازعات سے بچنے کا مشورہ دیتے رہتے تھے۔

 

اکبر نے 1983 میں بطور کلرک پاکستان فوج کے محکمہ الیکٹرکل اور مکینکل انجینئرنگ میں ملازمت اختیار کی اور  2006 میں ریٹائرمنٹ کے بعد آرمی پبلک سکول میں کام کرنے لگے۔

 

انہیں  لکی مروت میں آبائی گاؤں کے تمام ہی افراد سراہتے تھے، حتی کہ آج بھی انہیں یاد کیا جاتا ہے۔

 

مزید

 

ظاہر شاہ

والدین: زاز محمد اور یاغی گل

بیوی: مومینہ بی بی

بہن /بھائی: محمد شریف، عبدالرؤف، بشری بی بی، خیال محمد، محمد زاہد

عمر: 40

ظاہر شاہ

ظاہر نے سانحہ سے ایک سال قبل ہی سکول میں ملازمت اختیار کی تھی۔ انتہائی محنتی اور مخلص ظاہر اکثر سکول کے بچوں کو دل لگا کر پڑھنے کی تقلین کرتے۔

 

ظاہر کے بھتیجے شفقت شریف نے بتایا کہ انہوں نے انٹر تک تعلیم حاصل کی اور مالی حالات کی وجہ سے آگے پڑھائی جاری نہ رکھ سکے۔

 

ظاہر کی شادی تقریباً 12 سال پہلے ہوئی تھی۔ ان کی کوئی اولاد نہیں اور وہ اپنے بھتیجے اور بھتیجیوں میں خوشی تلاش کرتے۔

 

مزید

 

محمد شفیق

بچے: 8 سالہ ثاقب، 7 سالہ یسرا، 5 سالہ عافیہ اور2 سالہ  فریحہ

عمر: 41

محمد شفیق

شفیق 1996 سے سکول میں ہیڈ کلرک تھے۔ ان کا بھائی نے بتایا کہ وہ  ایک ایماندار اور محنتی ملازم تھے جو دل سےطالب علموں  سے پیار اور دیکھ بھال کرتے تھے۔

وہ اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلانے کے خواہش مند تھے۔ سکول کے اوقات کے بعد وہ ٹیکسی چلا کر  اپنے اہل خانہ کیلئے  کچھ اضافہ آمدنی کا بندوبست کرتے۔

ان کے دو بچے آج کل اے پی ایس میں زیر تعلیم ہیں۔

حملے کے وقت وہ خوف زدہ بچوں کو نکالنے میں مصروف تھے کہ ایک دہشت گرد نے انہیں پکڑ لیا۔

 

مزید

 

نواب علی 

والدین: فضل ربانی اور حسن زیبا

بچے: 13 سالہ فیضان، 10 سالہ حبیبہ گل اور9 سالہ عائشہ 

عمر: 42

نواب علی 

نواب بچپن میں تعلیم کے ساتھ ساتھ  سکول کی فیس اکھٹی کرنے کیلئے کام بھی کرتے تھے ۔ نواب اپنے آبائی علاقے چارسدہ میں ریاضی کے  جینئس  کہلائے جاتے تھے۔

انہوں نے 2000 میں اے پی ایس   میں ریاضی پڑھانا شروع کی۔

نواب کی بیوی نے بتایا کہ وہ ایک اچھے شوہر ،  شفیق اور ذمہ دار باپ تھے۔

نواب کی بیٹی عائشہ نے بتایا کہ  کس طرح وہ ان کی سالگرہ پر خوش ہوتے اور گڑیاں لا کر دیتے۔وہ ہر وقت مسکراتے رہتے تھے۔

 

مزید

 

سجاد علی

والدین: مرحوم اعجاز علی اور طلعت سجاد

بچے: 10 سالہ فیضان علی اور ساڑھے 4 سال کا فہد علی

عمر: 42

سجاد علی

سجاد علی آرمی پبلک اسکول میں گزشتہ 10 سال سے فرائض انجام دے رہے تھے۔ ان کے بھتیجے مدثر عباس نے بتایا کہ اسکول کا تمام اسٹاف اور رشتہ دار سجاد اور ان کے رویے کی تعریف کرتے تھے۔

 

سجاد کو یاد کرتے ہوئے مدثر کا کہنا تھا کہ اس کے چچا ایک ملنسار شخص تھے جو اپنے اہلخانہ اور رشتہ داروں کے درمیان باہمی تنازعات کے حل کے لیے ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔

 

سجاد نے مدثر کو اپنے بچوں کی طرح پالا تھا اور انہوں نے مدثر کی تعلیم اور پھر نوکری حاصل کرنے میں بھی مدد کی تھی۔

 

مزید

شہناز نعیم

شوہر : ڈاکٹر نعیم ممتاز

بچے : مشعل نعیم، اومامہ نعیم، انس نعیم

عمر: 42

شہناز نعیم

1994 سے آرمی پبلک اسکول سے وابستہ شہناز نعیم ایک لائق اور اپنے پیشے سے مخلص ٹیچر تھی جو اپنے متعدد ساتھیوں اور طالبعلموں کو غم زدہ چھوڑ کر چلی گئیں۔ ایک متاثر کن ٹیچر قرار دی جانے والی شہناز ایک محبت کرنے والی بیوی اور اپنے بچوں پر فدا ماں بھی تھیں جنھوں نے اپنے خاندان کی زندگی کو بھی بہترین طریقے سے سنبھال رکھا تھا۔

 

شہناز تعلیم کی ضرورت پر بہت زور دیتی تھیں اور اپنے بچوں کو خود پڑھاتی تھیں کیونکہ ان کی خواہش تھی کہ وہ اپنے والد کی طرح ڈاکٹر بنے۔

 

مزید

 

صوفیہ حجاب

شوہر : ایڈووکیٹ امجد سہیل

 

بچے : 17 سالہ تطہیر زہرہ، 13 سالہ فرواءآغا 

عمر: 42

صوفیہ حجاب

اپنی بیٹیوں کی بہترین دوست صوفیہ حجاب ایک شفقت سے بھرپور ماں اور سخت محنت کرنے والی ٹیچر تھیں۔ وہ چاہتی تھیں کہ ان کی بیٹیاں اچھی معیاری تعلیم حاصل کریں اور ڈاکٹر بنیں۔

انہوں نے اے پی ایس میں دو سال قبل بطور جونیئر ٹیچر پڑھانا شروع کیا مگر اپنی سخت محنت اور عزم کی بدولت مختصر وقت میں ہی سنیئر ٹیچر کی حیثیت سے ترقی کرنے میں کامیاب رہیں۔ ان کے ساتھی انہیں ایک محنتی خاتون کے طور پر یاد کرتے ہیں جو خوش باش فطرت کے ساتھ ہر ایک کے ساتھ ہنس کر لطف اندوز ہوتی تھیں۔ 

 

مزید

 

پرویز اختر

بیوی: ساجدہ پروین

 

بچے: 21 سالہ وسیم پرویز، 20 سالہ امہ کلثوم، 19 سالہ سلیم اور 14 سالہ رحیم 

عمر: 50

پرویز اختر

پرویز اختر پچھلے 20 سالوں سے سکول  کی لیب میں بطور نائب خدمات سر انجام دے رہے تھے۔

طالب علموں کے مطابق، پرویزایک ایماندار اور مخلص ملازم تھے۔

پرویز کے بچے انہیں ایک دھیمے مزاج  اور نرم دل والد کے طور پر یاد کرتے ہیں، جو محدود آمدنی کے باوجود ان کی خواہشات پوری کرتے۔

پرویز  اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دلا نے اور ملک کا نام روشن کرنے کے خواہش مند تھے۔

 

مزید

 

محمد سعید 

والد: محمد صفدر خان

 

بیوی: عائشہ بانو

عمر: 53

محمد سعید 

سعید پچھلے نو سالوں سے آرمی سکول میں اسلامک سٹیڈیز پڑھا  رہے تھے۔

طالب علم اسلامیات میں ماسٹرز  سعید کو ایک اچھے ٹیچر کے طور پر یاد کرتے ہیں۔نر خو اور دھیمے مزاج کے مالک سعید خواتین کی تعلیم کے عمل بردار  تھے۔

ان کے کئی طالب علم پاکستان فو ج میں شامل ہو چکے ہیں۔

حملے کے وقت انہوں نے اپنے طالب علموں سے پریشان نہ ہونے کی تلقین کی تھی۔

 

مزید

 

 

طاہرہ قاضی 

شوہر: لیفٹیننٹ کرنل (ر) قاضی ظفر اللہ خان

والد : قاضی حیات اللہ خان

بچے: 32 سالہ عارفہ قاضی، 30 سالہ عمران اللہ قاضی ، 24 سالہ احمداللہ قاضی 

عمر: 64

طاہرہ قاضی 

طاہرہ قاضی نے 1995 میں بطور  انگریزی ڈپارٹمنٹ کی سربراہ  آرمی پبلک سکول میں کام شروع کیا اور 2006 میں وہ پرنسپل کے عہدے پر فائز ہو گئیں۔

طاہرہ کے شوہر قاضی ظفر کہتے ہیں وہ اپنے طالب علموں کا انتہائی خیال رکھنے والی ایک مخلص ٹیچر ، پیار کرنے والی بیوی، ماں اور ایک دوست تھیں ۔

قاضی ظفر  کے مطابق، طاہرہ نے اپنی زندگی کے 37 سال بچوں کو شعور دینے میں صرف کر دیے اور آخر کار اسی مقصد کیلئے اپنی جان نذر کر دی۔

مزید