‘مجھ پر اور میرے بچوں پر فائر مت کرو’

الطاف حسین

عمر : 42 سال

حملے کا دن ان کی 6 سالہ بیٹی خولہ کا اسکول میں پہلا دن بھی تھا۔

‘مجھ پر اور میرے بچوں پر فائر مت کرو’

الطاف حسین اے پی ایس میں 15 سال سے انگلش پڑھا رہے تھے۔ جس روز حملہ ہوا وہ ان کی چھ سالہ بیٹی خولہ کا اسکول میں پہلا دن بھی تھا۔ انہوں نے بیٹی کے داخلے کے امور مکمل کیے ہی تھے کہ فائرنگ شروع ہوگئی۔ انہوں نے اپنی بیٹی کو ایک اور ٹیچر کے حوالے کیا، وہ دونوں جلد فائرنگ سے جاں بحق ہوگئے۔

 

دوسری جانب الطاف حسین باہر نکلے اور تین مسلح افراد کا سامنا کیا۔ انہوں نے اپنی داڑھی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ’اسے دیکھو۔ مجھ پر اور میرے بچوں پر فائر مت کرو‘۔ حملہ آوروں نے اس کا جواب گولیوں سے دیا اور انہیں مرنے کے لیے چھوڑ کر چلے گئے۔

 

جسم میں آٹھ گولیوں کے باوجود، جنھوں نے ان کے لیے حرکت کرنا ناممکن کردیا تھا، الطاف حسین کسی نہ کسی طرح خود کو دھکیلتے ہوئے ایک کمرے میں لے گئے اور دروازہ بند کردیا۔ فوجی اہلکار وہان چند گھنٹوں بعد پہنچے اور انہیں بچالیا گیا تاہم اسی موقع پر یہ خبر بھی ملی کہ ان کی بیٹی جاں بحق ہوگئی ہے۔ مزید

حملہ، اسکول میں واپسی

احمد جان

عمر: 16 سال  کلاس: 10

’ہمارے اساتذہ نے ہمیں فرش پر لیٹ جانے کا کہا، گولیوں کی بوچھاڑ کے دوران اللہ تعالیٰ نے مجھے محفوظ رکھا مگر میں اپنے بھائی سے محروم ہوگیا‘۔

حملہ، اسکول میں واپسی

دو گھنٹے تک احمد اور اس کے دوست کلاس روم کے اندر چھپے رہے اور خود کو باہر جاری شدید فائرنگ سے بچائے رکھا۔ احمد کے بھائی کے شدید زخمی ہونے کی خبر سامنے آنے کے حوالے سے احمد کا کہنا ہے کہ بے بسی کے احساس نے اسے صدمے کی کیفیت میں دھکیل دیا تھا۔ ’میرا بھائی صرف بھائی ہی نہیں تھا بلکہ وہ میرا بہترین دوست بھی تھا‘۔

 

اسکول کے باہر احمد کے والد دونوں بھائی کے محفوظ انخلاء کے منتظر تھے مگر صرف ایک ہی بچ سکا۔ ایک ماہ بعد احمد اے پی ایس واپس لوٹا مگر وہاں سے جانا چاہتا تھا۔ خون، جسم اور زخمی افراد کے مناظر اسے ڈراتے رہتے تھے مگر وہ انجینئر بننے کے خواب سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہوا اور بتدریج معمول کی زندگی گزارنے کی کوشش کرنے لگا جس دوران اس نے نفسیاتی مدد بھی لی۔ مزید

بچوں کی چینخیں

عامر امین

عمر: 18 سال  کلاس: سیکنڈ ایئر

عامر نے کمپیوٹر لیب میں چھپنے کی جگہ تو تلاش کرلی مگر گولیوں سے نہ بچ سکا۔

بچوں کی چینخیں

جب عامر امین نے فائرنگ کی آواز سنی تو اسے خیال آیا کہ یہ اسکول کے باہر معمول کی مشق ہے۔ مگر اگلے چند سیکنڈز میں فائرنگ کے ساتھ بچوں کے چینخنے اور رونے کی آوازیں بھی آنے لگیں۔ عامر باہر کی جانب بھاگا جہاں ایک دردناک منظر اس کے سامنے تھا، مسلح افراد بلاامتیاز طالبعلموں پر فائرنگ کررہے تھے اور ان میں سے بیشتر اس کے دوست تھے۔

 

عامر نے کمپیوٹر لیب میں چھپنے کی جگہ تو تلاش کرلی مگر گولیوں سے نہ بچ سکا۔ ایک حملہ آور نے اس کی ٹانگ کو نشانہ بنایا اور وہ درد سے ترپتے ہوئے اس وقت تک اتنظار کرتا رہا جب تک پولیس اہلکاروں نے اسے نکال نہیں لیا۔ اس کا بھائی اسحاق امین حملے کے دوران جاں بحق ہوگیا۔ مزید

ٹانگ میں گولی

کاشان ظہیر

عمر: 17 سال  کلاس: 10

’کاش میں بھی اپنے دوستوں کے ساتھ شہید ہوجاتا‘۔

ٹانگ میں گولی

اس روز تیسری کلاس کے بعد کاشان ظہیر اور اس کے دوست فرسٹ ایڈ پر ایک لیکچر کے لیے آڈیٹوریم کی جانب بڑھے۔ چند منٹ بعد پچھلا دروازہ دھماکے سے کھلا اور ہر سمت گولیوں کی بارش ہونے لگی۔ کاشان کو احساس ہوا کہ یہ اصل حملہ ہے اور وہ ایک کرسی کے نیچے لیٹ گیا۔ وہ بتاتا ہے ’عسکریت پسندوں نے کرسیوں کے نیچے بھی فائرنگ کی جہاں ہم چھپے ہوئے تھے۔ میں نے اپنے متعدد دوستوں کو شہید یا زخمی ہوتے دیکھا‘۔

 

کاشان کو بھی ٹانگ میں ایک گولی اس وقت لگی جب وہ آڈیٹوریم سے باہر بھاگ رہا تھا۔ اسے فوری طور پر علاج کے لیے ایک نجی ہسپتال منتقل کیا گیا مگر مکمل صحت یابی کے لیے اضافی آپریشنز کرنا پڑے۔ کاشان کی والدہ بتاتی ہیں کہ وہ اب پہلے کی طرح پڑھائی پر توجہ مرکوز نہیں کر پاتا اور اکثر چھوٹی یا معمولی باتوں پر غصے میں آجاتا ہے۔ وہ اکثر اپنی والدہ سے اس خواہش کا اظہار کرتا ہے کہ کاش وہ بھی اپنے دوستوں کے ساتھ ’شہید‘ ہوگیا ہوتا۔ مزید

‘میں نے مفلر کو بینڈیج کی طرح استعمال کیا’

معاذ عرفان

عمر: 16 سال  کلاس: فرسٹ ایئر

جاری علاج کی لاگت 30 لاکھ روپے سے بھی تجاوز کرچکی ہے۔

‘میں نے مفلر کو بینڈیج کی طرح استعمال کیا’

معاذ عرفان آڈیٹوریم میں کاشان کے ساتھ فرسٹ ایڈ کا لیکچر شروع ہونے کا انتظار کررہا تھا۔ عسکریت پسندوں نے جب اندر دھاوا بولا تو اس کے بازو پر تین گولیاں لگیں۔ جب عسکریت پسند چلے گئے تو معاذ لنگڑاتا ہوا اپنی کلاس کی جانب بڑھا جہاں ایک لڑکے نے اس کے مفلر کو اس کے بازو پر پٹی کی طرح لپیٹ دیا۔ وہ دو گھنٹے تک کمرے میں انتظار کرتے رہے جبکہ کسی کو اندر آنے سے روکنے کے لیے دروازے کے ساتھ کپ بورڈز کو لگادیا۔

 

معاذ کے علاج پر ہونے والا خرچہ اس سے زیادہ تھا جتنا اس کا خاندان برداشت کرسکتا تھا۔ اس کے گھر والوں کے مطابق حکومت نے 15 لاکھ روپے دیے تھے مگر علاج کا خرچہ 30 لاکھ روپے سے تجاوز کرگیا ہے۔ اگر ان کی جلد مدد نہ کی گئی تو معاذ اپنے ہاتھ سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوسکتا ہے۔ مزید

 

‘میں اپنے نو دوستوں سے محروم ہوگیا’

ملک حسان اعوان

عمر: 15 سال  کلاس: 10

ایک گولی ملک حسان کی ٹوپی میں لگی مگر وہ کسی نہ کسی طرح باہر نکلنے میں کامیاب رہا۔

‘میں اپنے نو دوستوں سے محروم ہوگیا’

جب فائرنگ شروع ہوئی تو ملک حسان اسی وقت اسکول کے آڈیٹوریم میں پہنچا تھا۔ جب اسے احساس ہوا کہ یہ کوئی عام مشق نہیں تو وہ اپنے دوستوں کے ہمراہ دروازے کی جانب بھاگا، جن میں سے دو راستے میں گرگئے جبکہ تین نے نکلنے کی کوشش کی مگر جاں بحق ہوگئے۔ ایک گولی ملک حسان کی ٹوپی میں لگی مگر وہ کسی نہ کسی طرح بچ کر مرکزی دروازے تک پہنچنے میں کامیاب رہا۔ اس نے فوری طور پر رکشہ لیا اور گھر کی جانب بھاگا۔

 

ملک حسان کے مطابق وہ ذہنی طور پر تو سنبھل گیا ہے مگر وہ اس دن اور دوستوں کو کبھی بھول نہیں سکتا۔ اس کا بھائی اسامہ طارق بھی اس حملے میں جاں بحق ہوا۔ اب وہ جب بھی فائرنگ کی آواز سنتا ہے تو خوفزدہ ہوجاتا ہے۔ ’میں نے اپنے نو دوستوں کو کھویا، میں سر درد کے بغیر پڑھ بھی نہیں پاتا‘۔ مزید

گھنٹوں تک فائرنگ سنتا رہا

مرتجز رضا بنگش

عمر: 12 سال  کلاس: 7

ہر چیز خون سے لت پت تھی، ہر جگہ لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔

گھنٹوں تک فائرنگ سنتا رہا

جب باہر حملہ ہوا تو مرتجز اور اس کے ساتھی کلاس روم کے اندر جمع ہوئے اور خود کو اندر بند کرلیا۔ مرتجز کا خیال تھا کہ یہ سینئرر طالبعلموں کی معمول کی مشق ہے مگر جلد ہی اسے احساس ہوا کہ یہ اصل فائرنگ ہے۔ دو گھنٹے تک وہ خاموشی سے اندر اپنے دوستوں کے ساتھ رہا اور باہر سے آنے والی دہشت ناک آوازوں کو برداشت کرتا رہا۔ وہ بتاتا ہے کہ فائرنگ اتنی شدید کی کہ ’کئی مواقع پر تو میں قوت سماعت سے بھی محروم ہوا‘۔

 

مرتجز کو یاد ہے کہ فوجی اہلکار کئی گھنٹوں بعد آئے اور ان بچوں کو ہسپتال لے گئے جہاں سب کچھ خون سے لت پت تھا، لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ وہ اب دوبارہ اسکول جانے لگا ہے اور پاک فوج کا حصہ بننے کا خواہشمند ہے تاکہ بڑا ہونے کے بعد دہشت گردوں سے لڑ سکے۔ مزید

‘ہم بس بھاگ جانا چاہتے تھے’

عبید ساجد

عمر: 16 سال  کلاس: 9

’میں اپنی تعلیم جاری رکھوں گا اور انجینئر بنوں گا‘۔

‘ہم بس بھاگ جانا چاہتے تھے’

عبید اس وقت آڈیٹوریم میں تھا جب فائرنگ شروع ہوئی۔ وہ کسی ڈرل کی طرح شروع ہوئی مگر ہال کا عقبی دروازہ ٹوٹا اور مسلح افراد کمرے میں داخل ہوگئے۔ عبید کے مطابق ’ہم بس وہاں سے بھاگ جانا چاہتے تھے‘۔ عبید مضطربانہ انداز سے دوسرے دروازے کی جانب بڑھا جس دوران اسے چار گولیاں لیں، وہ دروازے کے پاس گرگیا اور جب حملہ آور چلے گئے تو چھپنے کے لیے لائبریری کی جانب بھاگا۔ وہ وہاں دو گھنٹے تک انتظار کرتا رہا جس دوران وہ اپنی یا اپنے زخمی دوستوں کی مدد کرنے سے قاصر رہا۔

 

اس کے دونوں بازو آہستگی سے ٹھیک ہورہے ہیں اور مزید علاج کے بعد عبید ایک بار پھر پہلے کی طرح صحت مند ہوجائے گا۔ اس کے لیے اسکول دوبارہ شروع کرنا مشکل تھا، زخموں کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لیے کیونکہ اس کے متعدد دوست اس دن شہید ہوگئے۔ عبید تسلیم کرتا ہے ’شروع کے چند روز میں فکر مند اور خوفزدہ رہا، مگر اب بالکل ٹھیک اور بہادر ہوچکا ہوں۔ میں اپنی تعلیم جاری رکھوں گا اور انجینئر بن کر دکھاﺅں گا‘۔ مزید

‘ہمارا خیال تھا یہ ربڑ کی گولیاں ہیں’

سید احسن علی

عمر: 15 سال  کلاس: 10

’اسکول میں واپسی آسان نہیں تھی کیونکہ وہاں کوئی دوست باقی نہیں بچا تھا‘۔

‘ہمارا خیال تھا یہ ربڑ کی گولیاں ہیں’

جب آڈیٹوریم میں فائرنگ شروع ہوئی تو احسن اور اس کے دوستوں نے دیگر طالبعلموں کی طرح یہی خیال کیا کہ یہ معمول کی ڈرل ہے۔ احسن کے مطابق ’ہم اس پر ہنسنے لگے اور سوچنے لگے کہ یہ ربڑ کی گولیاں ہیں‘۔ جب طالبعلم گرنا شروع ہوئے تو احسن اور اس کے دوستوں نے کرسیوں کے نیچے پناہ لینے کی کوشش کی۔ اس کے متعدد دوست وہیں جاں بحق ہوئے۔ جب عسکریت پسند وہاں سے نکل گئے تو اساتذہ نے طالبعلموں کو جمع کرکے باہر کی جانب نکالا۔

 

احسن دروازے کی جانب بھاگا مگر جب اس کا ایک دوست بھاگتے ہوئے گرا تو اسے حرکت کرنے سے بہت زیادہ ڈر لگنے لگا۔ کسی نہ کسی طرح وہ بچنے میں کامیاب رہا اور اب وہ کہتا ہے ’میں خوش قسمت تھا، میرے کم از کم 40 دوست عسکریت پسندوں کے ہاتھوں جاں بحق ہوئے‘۔ مزید