خولہ بی بی

والدین : الطاف حسنی اور صفورا بی بی

 

بہن بھائی : ثمر (12 سال)، شوبدی (11 سال)، ایک سالہ اریبہ 

 

عمر: 6 سال     کلاس : 1

خولہ بی بی

خولہ اس خوفناک حملے میں دنیا سے گزر جانے والی سب سے کم عمر طالبہ تھی۔

 

اس کے والد اور اے پی ایس کے ایک ٹیچرر کے مطابق سولہ دسمبر 2014 خولہ کا اسکول میں پہلا دن تھا۔

 

اسے ایک دن قبل ہی اسکول میں داخلہ ملا تھا اور اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ ایک ہی اسکول میں پڑھنے کے خیال نے اسے پرجوش کردیا تھا۔  مزید

شہزاد اعجاز

والدین : میاں اعجاز احمد اور طاہرہ اعجاز

بہن بھائی : حنا اعجاز (اے پی ایس کی طالبہ، 16 سال)، زکریا اعجاز (12 سال)، 9 سالہ بسمہ اعجاز 

 

 

عمر: 12    کلاس: 8

شہزاد اعجاز

مہذب اور مطالعے کا شوقین شہزاد ائیرفورس پائلٹ بننے کا خواہشمند تھا۔ وہ راشد منہاس کو اپنے لیے مثالی شخصیت قرار دیتا تھا جس سے وہ سب سے زیادہ متاثر تھا۔

 

شہزاد کو پاکستان کے لڑاکا طیاروں کی تصاویر جمع کرنے کا شوق تھا اور اس کے والد بتاتے ہیں کہ وہ لڑاکا طیاروں اور فضائی حملوں سے متعلق کتابیں پڑھنا پسند کرتا تھا۔​

 

شہزاد کا چھوٹا بھائی زکریا جو کہ اے پی ایس کا ہی طالبعلم ہے، یاد کرتا ہے کہ کس طرح ساتویں کلاس میں شہزاد کا بازو ایک فٹبال میچ کے دوران زخمی ہوگیا مگر فریکچر کے باوجود وہ کھیل سے دستبردار نہیں ہوا۔ مزید پڑھیں

شاہ زیب

والدین: نذیر احمد اور شہناز

 

بہن/بھائی: لاریب (9)، شاہویز (6)، ایک سالہ شہیر

عمر: 12 سال   کلاس: 8

شاہ زیب

 

دوسرے ہم عمر لڑکوں کی طرح ،شاہ  زیب کھیلوں کے مداح اور کرکٹ اور فٹبال ان کے پسندیدہ کھیل تھے۔

انہیں کمپیوٹر گیمز کا بھی شوق تھا اور وہ اپنے جیب خرچ سے پیسے بچا بچا کر  نئے گیمز کی سی ڈیز خریدتے۔

کھیلوں کے علاوہ شاہ زیب فارغ وقت میں موسیقی اور کتب بینی سے لطف اندوز ہوتے۔ شاہ زیب کے پاس ہمیشہ نئے موبائل فونز ہوتے ۔

شاہ زیب کو پاکستانی کھانے بالخصوص دال چاول، چکن بریانی، چپل کباب اور حلیم انتہائی پسند تھے۔ مزید

 

ضیااللہ اسلام

والدین: عبدالقادر اور نشاط قادر

 

بہن/بھائی: شہناز شبنم (17)، معین السلام (15)، نایاب صدف (13)، ایمن (9)، محمد طلحہ 

عمر:12 سال   کلاس:8 

ضیااللہ اسلام

ضیااللہ بڑے ہو کر الیکٹریکل انجینئر بننا چاہتے تھے۔ انہوں نے کبھی بھی گھر میں  خراب برقی آلات ٹھیک کرنے کی کوشش کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔

 

ضیااللہ کے والد نے بتایا کہ ایک مرتبہ انہوں نے خطرے کے پیش نظر ضیا کو  ایک خراب مشین ٹھیک کرنے سے روکا لیکن انہوں نے  جواب دیا کہ وہ الیکٹریکل انجینئر بننا چاہتے ہیں لہذا انہیں نہ روکا جائے۔

 

ضیا اللہ کلاس میں بہت سرگرم رہتے  اور ہمیشہ ٹاپ چار طالب علموں میں پوزیشن پاتے۔ مزید