والدین: تنویر احمد اعوان اور لبنیٰ تنویر
بہن/بھائی: ہارون غنی اعوان (19)، محمد طیب غنی اعوان (11)، دل اعوان (10)۔
عبداللہ کو پتنگ اڑانے کا شوق تھا اور وہ جانوروں سے محبت کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے گھر میں طوطے، مرغیاں، خرگوش اور مچھلیاں پال رکھی تھیں اور اپنے پالتو جانوروں کے لیے ایک بڑے بڑے پنجرے تیار کیے تھے۔ جب عبداللہ کی پالی ہوئی مرغیاں انڈے دیتیں تو وہ شدت سے چوزوں کے پیدا ہونے کا انتظار کرتے تاکہ وہ ان کے ساتھ کھیل سکیں۔ ان کے انتقال کے بعد ایک درجن چوزے پیدا ہوئے تاہم عبداللہ انہیں دیکھنے کے لیے موجود نہیں تھے۔
والدین: محمد یونس اور عذرا بی بی
بہن/بھائی: عفان شہزاد (12)، الیزے شہزاد(9) اور احمد
(علی (6
ذمہ دار اور عقل مند عادل چار بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ سنجیدہ اور پڑھائی میں تیز عادل کو خاندان کے تمام بچوں کیلئے رول ماڈل قرار دیا جاتا۔
وہ اپنا ٹائم ٹیبل بناتے اور سختی سے اس پر عمل پیرا ہوتے۔وہ اپنے والد اور دادی کے انتہائی قریبی اور فرمانبردار تھے۔
عادل پروفیسر بننے اور برازیل سے پی ایچ ڈی کرنے کے خواہش مند تھے۔ انہوں نے امتحانات میں ہمیشہ 90 فیصد سے زائد نمبر حاصل کیے اور پسندیدہ مضامین میں انگریزی، اردو اور اسلامیات شامل تھے۔
والدین: محمد فوزان شفی اور عائشہ فوزان
بھائی/بہن: فامیعہ فوزان 16، فضا فوزان 9
علیان اپنے فارغ وقت میں اپنی سائیکل چلایا کرتے تھے۔ وہ ملنسار طبیعت کے حامل تھے اور ایک اچھے طالب علم بھی تھے۔ ان کے والدین ان کی جانب سے حاصل کردہ اسناد بہت فخر سے پیش کرتے ہیں۔
علیان پاک فضائیہ میں شمولیت اختیار کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔
ان کے والد کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ بھی فیصلہ کرلیا تھا کہ امتحانات کے بعد وہ اپنے بیٹے کے لیے کون سی سائیکل خریدیں گے۔
مزید
والدین: مسٹر اور مسز نعمان اقبال
عمار اقبال کے حوالے سے جاننے کے لیے اس کے والدین سے رابطہ نہیں کیا جاسکا۔
عمار کے حوالے سے اس کے اساتذہ کہتے ہیں کہ وہ ایک ذہین اور فرمانبردار طالب علم تھا۔
اس کی ایک ٹیچر مس جمیلہ کہتی ہیں کہ عمار شوخ اور چنچل طبیعت کا لڑکا تھا جو شرارت میں اسکول کے طالبعلموں اور اساتذہ دونوں کو تنگ کرتا تھا۔ وہ پڑھائی میں ذہین اور محنتی لڑکا تھا اور بڑا ہو کر سرجن بننا چاہتا تھا۔
والدین: ثناءاللہ خان خٹک، نورین ثناء
بہن بھائی: 24 سالہ شہیر خان، 23 سالہ زوات خان، 19 سالہ یشفین خان
چار بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ارحم ایک ذہین طالب علم تھے، جنھوں نے چھٹی جماعت سے آٹھویں جماعت میں ڈبل پروموشن حاصل کی۔
ارحم کو کمپیوٹرز میں خاص طور پر دلچسپی تھی اور وہ اسکائپ، ای میل اور فیس بک کے ذریعے لوگوں سے رابطہ کرنا سیکھ رہے تھے۔
ارحم کا پسندیدہ کھانا پشاور کے مشہور چپلی کباب تھے، جنھیں لانے کی وہ اکثر اپنے والد سے فرمائش کیا کرتے تھے۔
والدین: وزیر رحمان اور بی بی زہرہ
آٹھ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے عاطف ایک ڈاکٹر بن کر اپنے آبائی گاؤں کے لوگوں کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔
عاطف کے بڑے بھائی انہیں تعلیم کے غرض سے گاؤں سے پشاور شہر لائے۔
عاطف تعلیم میں اچھے تھے اور عموماً امتحانات میں 90 فیصد سے زائد نمبر لیتے۔تاہم، کیڈٹ کالج کوہاٹ کا ٹیسٹ پاس کرنے کے باوجود انہیں وہاں داخلہ نہیں مل سکا۔
ٹیکنالوجی کے دلدادہ عاطف کو کمپیوٹر گیمز اور ڈیجیٹل گیجٹس سے متعلق معلوماتی دستاویزی پروگرام دیکھنے کا شوق تھا۔
والدین : اکرام اللہ اور حمیدہ احمد
بہن بھائی : 26 سالہ اشفاق احمد ، 25 سالہ نازیہ احمد ، 23 سالہ شہاب احمد ، 18 سالہ وقاص احمد ، 17 سالہ ذیشان احمد ، 8 سالہ نمرہ احمد۔
بااخلاق اور ہمدرد بچہ اویس طبی تعلیم حاصل کرکے ڈاکٹر بننا چاہتا تھا۔ وہ اکثر ہسپتالوں کی حالت و زار پر افسوس کرتا خاص طور پر جو دیہات میں واقع تھے اور اپنی کوششوں سے نظام میں بہتری اور اصلاحات کی توقع کرتا۔
اویس اپنے والدین کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا اور اس کے والد جن کے دو بیٹے اے پی ایس سانحے میں جاں بحق ہوئے۔ وہ ریاضی کا اچھا طالبعلم تھا اور اپنے بہن بھائیوں کی تدریسی سرگرمیوں میں مدد بھی کرتا تھا۔ اویس نے متعدد میڈلز اور سرٹیفکیٹس بھی حاصل کیے تھے اور اسے اساتذہ ایک ہونہار طالبعلم تصور کرتے تھے۔
والدین: جمال عبدالناصر اور روزینہ ناصر
بھائی/بہن: 20 سالہ حرا ناصر، 17 سالہ ثناء ناصر، 12 سالہ حارث، 11 سالہ عبدالناصر۔
اویس ہمیشہ مزاق مستی کے موڈ میں رہتے تاہم ہمیشہ بڑوں کا احترام کرتے۔ وہ چار بہن بھائیوں کے ذمہ دار بھائی تھے۔ ان کی دونوں بہنیں ان سے عمر میں بڑی جبکہ بھائی چھوٹے تھے۔
ان کے والد کہتے ہیں کہ اویس کو اچھے کپڑے پہن کر تیار ہونے کا بہت شوق تھا۔ ان کے انتقال سے صرف تین روز قبل اویس کے والد چین کے دورے سے واپسی پر ان کے لیے تین نئے سوٹ لائے تھے تاہم انہیں اب اویس کبھی نہیں پہن پائیں گے۔
والدین: راشد علی اور شہلا راشد
بہن بھائی: 22 سالہ عالیہ راشد، 22 سالہ حمیرا راشد، 19 سالہ بابر علی خان، 17 سالہ عظمیٰ راشد
اسپیلنگ میں مہارت کی بات ہو یا آرٹس میں، باقر ہر لحاظ سے ایک غیر معمولی طالب تھے۔ انھیں مطالعے کا اتنا شوق تھا کہ اپنا ہوم ورک ختم کرنے کے بعد اپنی بڑی بہن کی اسکول کی کتابیں پڑھنا شروع کردیتے تھے۔
باقر کی یادداشت شاندار تھی اور وہ طب کے شعبے میں جاکر ڈاکٹر بننا چاہتے تھے۔
انھوں نے آرمی پبلک اسکول میں 2005 میں داخلہ لیا تھا۔
اپنے دیگر ہم عمر بچوں کی نسبت باقر ایک سنجیدہ قسم کے بچے تھے، ان کے والد کے مطابق باقر کی شخصیت بہت میچور تھی اور وہ بہت کم مذاق کرتے تھے۔
والدین: اختر حسین اور ثمینہ حسین
بہن بھائی: 17 سالہ احمد حسین، 16 سالہ عزیر حسین، 9 سالہ عاصم حسین
جس دن آرمی پبلک اسکول پر حملہ کیا گیا، اُس دن فہد کی سالگرہ تھی۔ حملے سے ایک دن قبل انھوں نے برتھ ڈے پارٹی کے لیے اپنے دوستوں اور کزنز کو گھر پر مدعو کیا تھا۔
فہد کے دوست رحمٰن نے حملے کے دن ان کی بہادری کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ جب دہشت گرد کلاس روم میں داخل ہوئے اور انھوں نے فائرنگ شروع کی تو فہد نے کلاس روم کا دروازہ کھولا اور اپنے دوستوں کو وہاں سے نکل جانے کا کہا۔
وہ دروازے پر اُس وقت تک کھڑے رہے جب تک ان کے ہم جماعت وہاں سے نکل نہ گئے، وہی وقت تھا جب فہد کو سر اور ٹانگ پر گولیاں لگیں۔
والدین: اختر حسین اور ثمینہ حسین
بہن بھائی: 17 سالہ احمد حسین، 16 سالہ عزیر حسین، 9 سالہ عاصم حسین
جس دن آرمی پبلک اسکول پر حملہ کیا گیا، اُس دن فہد کی سالگرہ تھی۔ حملے سے ایک دن قبل انھوں نے برتھ ڈے پارٹی کے لیے اپنے دوستوں اور کزنز کو گھر پر مدعو کیا تھا۔
فہد کے دوست رحمٰن نے حملے کے دن ان کی بہادری کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ جب دہشت گرد کلاس روم میں داخل ہوئے اور انھوں نے فائرنگ شروع کی تو فہد نے کلاس روم کا دروازہ کھولا اور اپنے دوستوں کو وہاں سے نکل جانے کا کہا۔
والدین: فرہاد علی بنگش اور راحیلا خاتون
بھائی/بہن: 13 سالہ نرگس بتول ، 10 سالہ فاطمہ بتول ، ، 8 سالہ محمد ذوالقرنین حیدر۔
فرقان اپنے اہل خانہ کے ساتھ متحدہ عرب امارات میں رہائش پذیر تھے تاہم پاکستانی فوج میں شمولیت اختیار کرنے کے مقصد سے انہوں نے اپنے انتقال سے ایک سال قبل آرمی پبلک اسکول میں داخلہ لیا۔
اس دوران وہ اپنے چچا کے ساتھ پشاور میں رہے جن کی آنکھیں اپنے بھتیجے کو یاد اشک بار ہوگئیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی فرقان سے سختی سے بھی بات کرلیتا تب بھی وہ کبھی صبر کا دامن نہیں چھوڑتے اور مسکراکر جواب دیتے۔
والدین: مسٹر اینڈ مسز محمد اقبال
بہن/بھائی: 19 سالہ سعدیہ اقبال ، 17 سالہ پلوشہ اقبال ، 15 سالہ نفیسہ اقبال ، 13 سالہ عثمان اقبال ، 11 سالہ شبیر اقبال۔
ہمایوں ایک شرارتی لیکن اچھے طالب علم تھے۔ ان کے والد کو ان کی شرارتوں کے باعث کم از کم ہفتے میں ایک مرتبہ اسکول بلایا جاتا۔ وہ بتاتے ہیں کہ جیسے ہی وہ اسکول کے قریب پہنچتے چوکیدار سے لیکر ٹیچرز تک سب ہمایوں کی شکایت کرتے۔ لیکن ان کے اچھے طالب علم ہونے کی وجہ سے کبھی کوئی ان پر غصہ نہ ہوتا۔ وہ اسکول میں 'اطالوی بچے' کے نام سے مشہور تھے۔
وہ اپنے والد کے قریب تھے اور اپنے دادا حاجی سردار اعظم کے ساتھ ان کا رشتہ بہت مضبوط تھا۔
والدین: سیف اللہ خان اور نسرین سیف
بھائی/بہن: 26 سالہ نعیم سیف، 24 سالہ خالد سیف، 21 سالہ ساجد سیف ، 18 سالہ عامر سیف۔
حامد کے والد بھی ایک فوجی تھے اور اسکول میں وہ بہترین طالب علم تھے۔ انہیں اس حوالے سے متعدد اعزازات سے بھی نوازا جاچکا تھا۔ اس کے علاوہ انہیں 'بہترین نوجوان صحافی' کا ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔
جس دن حملہ ہوا، حامد نے اپنے چچا سے دعا کرنے کی درخواست کی تھی کیوں کہ اس دن انہوں نے ایک پریزینٹیشن تیار کی تھی۔
والدین: محمد کامران شفی اور نجمہ کامران
بھائی بہن: 18 سالہ مومینہ کامران اور 16 سالہ حرا کامران
حمزہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ کھیل کود کا بھی شوق رکھتا تھا، باسکٹ بال اور کرکٹ اس کے پسندیدہ کھیل تھے۔ اس نے اپنی جماعت میں کئی بار پوزیشن لی تھی اور کھیلوں اور دیگر غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی کئی ایوارڈز جیتے تھے۔
دو بہنوں کا اکلوتا بھائی اور اپنی والدہ کے دل کے قریب رہنے والا حمزہ گھر میں جو پکا ہوتا کھا لیتا تھا لیکن اسے کڑاہی گوشت اور برگر کھانا زیادہ پسند تھا۔
والدین: مسٹر اینڈ مسز محمد نواز
بھائی: 15 سالہ احمد نواز
اسکول پر حملے والے دن حارث اور احمد دونوں بھائی نشانہ بنے۔ احمد کو انتہائی زخمی حالت میں ہسپتال لے جایا گیا جہاں سے بعد ازاں اسے علاج کے لیے انگلینڈ منتقل کیا گیا، جبکہ حملے میں حارث جاں بحق ہوگیا۔
حارث کے والدین اس کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ ایک فرمانبردار اور باحترام لڑکا تھا۔ وہ بڑٓ ہو کر ڈاکٹر بننا چاہتا تھا۔ اس کا خواب تھا کہ وہ ایک ہسپتال بنائے جہاں غریبوں کا مفت علاج کیا جاسکے۔
والدین: مسٹر اینڈ مسز شریف گل
حسنین اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔
اس کے والد سے جب اس کے بارے میں پوچھا گیا تو وہ اپنے بیٹے کو کھونے کا دکھ بیان نہ کرسکے۔ انہیں اپنے بیٹے کے لیے کئی خواب دیکھ رکھے تھے۔ انہیں امید تھی کہ حسنین اپنی تعلیم مکمل کرکے محنت کرکے معاشرے میں اپنا مقام بنائے گا۔ انہیں یہ بھی امید تھی کہ حسنین بڑا ہو کر گھر کا مالی بوجھ بھی بانٹے گا۔
والدین: رانا اورنگزیب اور رقیہ بی بی
بہن /بھائی: 20 سالہ رانا ثنا زیب، 16 سالہ حافظ رانا محمد آفتاب زیب، 16 سالہ رانا محمد مہتاب زیب
’میں رنگ شربتوں کا ، تو میٹھے گھاٹ کا پانی‘، یہ وہ گانا ہے جو آفتاب اپنی خوبصورت آواز میں اکثر گنگناتے تھے۔
آفتاب کے والد بتاتے ہیں کہ وہ ایک شاندار طالب علم ، بہترین مقرر اور پڑھنے لکھنے کی صلاحیتیوں سے مالا مال تھے۔
ان کا پسندیدہ مضمون حساب تھا، جس میں وہ ہمیشہ 90 فیصد سے زیادہ نمبر حاصل کرتے۔ آفتاب پڑھائی کے علاوہ کھیلوں مثلاً کرکٹ اور ، فٹبال اور ٹینس میں بھی اچھے تھے۔
والدین کا نام: مسٹر اور مسز محمد ارشد ظفر
بھائی بہن: 12 سالہ محمد عبید اور 4 سالہ علی موسیٰ
عبد اللہ کی والدہ اسے یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ بچہ ہونے کے باوجود عبد اللہ کبھی بچوں کی طرح خوشیوں بھری زندگی نہیں جی سکا کیونکہ 2 سال قبل اس والد کے انتقال ہوگیا تھا۔ وہ اپنے ہم عمر بچوں کی طرح نہ ہی مذاق کرتا تھا اور نہ شرارتیں۔ رات کو جب سب گھر والے چین سے سوجاتے تھے، عبد اللہ اٹھ کر تمام دروازیں چیک کرتا کہ کہیں کوئی دروازہ کھلا نہ رہ گیا ہو۔
عبد اللہ اپنی والدہ سے بہت قریب تھا اور ان کے لیے اس کا پیار اس کی بنائی ہوئی ڈرائینگز سے بھی جھلکتا تھا (تصویر منسلک ہے)۔ وہ بڑوں کا بہت ادب کرتا تھا اور جب بھی کسی کے قریب سے گزرتا، اسے سلام کرتا تھا۔
والدین: امین خان، بی بی عائشہ
بہن بھائی: 18 سالہ صائمہ امین، 18 سالہ پلوشہ امین، 16 سالہ سویرا امین، 12 سالہ شارم خان
اپنے اسکول میں چھوٹے سائنسدان کے نام سے جانے جانے والے محمد غسان ایک ذہین طالب علم اور اپنی کلاس کے پوزیشن ہولڈر تھے۔
وہ اسکول میں تمام غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے تھے، چاہے وہ دماغی ہوں یا جسمانی، انھوں نے مختلف مواقعوں پر 35 سرٹیفکیٹس اور ایوارڈز بھی حاصل کر رکھے تھے۔
غسان ایک تخیلقی ذہن رکھتے تھے اور ان کے والد جو خود بھی ایک پی ایچ ڈی اسکالرہیں، کے مطابق غسان کی تحریر شاندار اور غلطیوں سے پاک ہوتی تھی۔
والدین : غلام دین اور شاہدہ نسرین
بہن بھائی: 15 سالہ فیصل، 10 سالہ عثمان، مرحوم فیضان 2002-2005
حارث کی وفات نے اس کے خاندان کو بکھیر کر رکھ دیا۔ اس کے والدین کے لیے یہ دوسرا موقع تھا جب ان کا کوئی بچہ ہمیشہ کے لیے چلا گیا، حارث سے پہلے ان کا بیٹا فیضان تین سال کی عمر میں فوت ہوگیا تھا۔
حارث کی والدہ بتاتی ہیں کہ ان کا بیٹا ایک فرمانبردار بچہ تھا اور جو کام وہ کہتی وہ اسے فوری طور پر کرتا۔ والدہ کے مطابق حارث ایک حساس اور ذمہ دار لڑکا تھا، جس نے ان کا خیال اس وقت رکھا جب ان کے بیٹے فیضان کا انتقال ہوا۔
والدین: محمد اکرام اور حمیدہ بی بی
بہن بھائی: 7 سالہ عائشہ، 7 سالہ عبد الرحمان اور 2 سالہ مدیحہ
بھائی بہنوں میں سب سے بڑا محمد سلمان ایک اچھا طالب علم تھا جس کا جماعت کے قابل طالب علموں میں شمار ہوتا تھا۔
سلمان ڈاکٹر بننا چاہتا تھا اور ڈاکٹر بننے کے لیے پاکستان کے کسی میڈیکل کالج میں داخلہ نہ ہونے کی صورت میں اس کے والد اسے میڈیکل تعلیم کے لیے بیرون ملک بھیجنے کے لیے بھی تیار تھے۔
سلمان کو کرکٹ کھیلنا پسند تھا تاہم فارغ اوقات میں بائیک چلانا اس کا بہترین مشغلہ تھا۔ اس کے والد کو آج بھی یاد ہے کہ سلمان باہر جاکر بائیک چلانے کے لیے کیسے کیسے بہانے ڈھونڈتا تھا اور بائیک پر جاکر گھر کا سودا سلف لانے کے لیے ہر وقت تیار رہتا تھا۔
والدین: مسٹر اینڈ مسز محمد فواد
بھائی/بہن: 12 سالہ درشم فواد ، 10 سالہ مناہل فواد
طیب اپنی کلاس میں پوزیشن ہولڈر تھے۔ وہ نہ صرف تعلیم کے میدان میں اچھے تھے بلکہ والی بال کے بہترین کھلاڑی بھی تھے جس کے لیے انہیں متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا۔
ان کے والد بتاتے ہیں کہ طیب غصے کے تیز تھے اور ہر کام جلدی کرنا چاہتے تھے تاہم وہ اس بات کو یقینی بناتے تھے کہ ان کے والد کے سامنے وہ غصے کا اظہار نہ کریں۔
والدین: طارق جان، شگفتہ طارق
بہن بھائی: 18 سالہ مہوش طارق، 13 سالہ سہیل طارق، 7 سالہ ساویل طارق
ننگیال طارق ایک بہت سلجھے ہوئے اور سوبر لڑکے تھے، لیکن اکثر گھر والوں سے ہنسی مذاق بھی کیا کرتے تھے۔
انھیں پڑھائی میں بہت دلچسپی تھی اور وہ آرمی کیپٹن بننا چاہتے تھے۔
والدہ کے مطابق ننگیال کو اپنے بالوں کے ساتھ تجربات کرنا پسند تھا اور وہ اکثر نت نئے ہیئر اسٹائل بناتے رہتے تھے۔ انھیں پرانی اشیاء جمع کرنے کا بھی شوق تھا۔
والدین: محمد طاہر خان، شگفتہ
بہن بھائی: 20 سالہ مومنہ خان، 16 سالہ محمد منیب خان، 12 سالہ طوبیٰ
شہیر کی والدہ کے لیے اپنے بیٹے کے بے رحمانہ قتل کو قبول کرنا آج بھی بہت مشکل ہے، وہ اب بھی شہیر کی وہ ٹائی اپنے ساتھ رکھتی ہیں، جو وہ اسکول پہن کر جاتے تھے اور جس پر واضح طور پر گولیوں سے متاثر ہونے کے نشانات موجود ہیں۔
شہیر ایک شرارتی طالبعلم تھے، اُن کے والد ماضی کا قصہ یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ آرمی پبلک اسکول کے لیب اسسٹنٹ، لیب کو لاک کرنا بھول گئے، جس کے بعد شہیر اور ان کے دوست لیب پہنچ کر سیدھا کمپیوٹرز کی طرف گئے اور انھوں نے ہر ماؤس سے ٹریک بالز نکال لیے، لیکن جیسے ہی انھوں نے ٹیچر کو آتے ہوئے دیکھا۔
والدین: فضل محمد خان اور زیب النسا
بہن بھائی: 11 سالہ صاحبزادہ افراسیاب خان، 6 سالہ: صاحبزادی مشال خان، 4 سالہ صاحبزادی علینہ اور 9 ماہ کا صاحبزادہ جیسم
عمر بھائی بہنوں میں سب سے بڑا ہونے کی وجہ سے ایک ذمہ دار لڑکا اور بھائی تھا۔ اس کے والدین کہتے ہیں کہ وہ بہت ہی سمجھدار اور فرمانبردار تھا، جو اپنے گھر والوں کی کسی بھی ضرورت کو، ان کے کچھ بھی کہنے سے پہلے ہی جان لیتا تھا۔
اگر اس کی والدہ گھریلوں کاموں میں مصروف ہوتیں، تو عمر اپے والد اور بہن بھائیوں کے لیے کھانا بھی پکالیتا اور اسے اس کے ذمہ دارانہ رویے پر گھر والے اسے ’گھر کا لیڈر‘ بھی کہتے تھے۔
والدین : تحسین اللہ درانی اور فلک ناز
بہنیں : 19 سالہ ثناء، 17 سالہ حفضہ ، 11 سالہ عمارہ
سیف اللہ درانی کو اس کے اسکول کے ساتھی ' آلو' کی عرفیت سے بھی جانتے تھے کیونکہ اسے اس سبزی سے بہت محبت تھی۔ اسے کھانے کا بہت شوق تھا اور وہ بڑا ہونے پر پائلٹ بننا چاہتا تھا۔
وہ اور اس کے بھائی کے درمیان اکثر قریبی مسجد میں نمازیں پڑھنے، مسجد کو صاف رکھنے اور دیگر خدمات سرانجام دینے کا مقابلہ ہوتا جو کہ سیف کا مشغلہ تھا۔
والدین کا نام: مسٹر اینڈ مسز ظہور
بہن بھائی: 13 سالہ اریشہ عالم
شہود ایک غیر معمولی ذہین طالب علم تھے۔ اپنے کریڈٹ پر 50 کے قریب سرٹیفیکٹیس اور ایوارڈز رکھنے والے شہود اسکول میں اپنی ذہانت اور قابلیت کی وجہ سے بہت مشہور تھے اور اپنی کلاس کے پراکٹر اور 'پیس کیپر' ہونے کے ساتھ ساتھ ہر تعلیمی ایونٹ کے موقع پر اسٹیج سیکریٹری کے فرائض بھی سرانجام دیتے تھے۔
ان کے اساتذہ انھیں اسکول کے 'چمکتے ہوئے ستارے' کی حیثیت سے یاد کرتے ہیں۔
والدین: ماشا دین، زمان بی بی
بہن بھائی: 16 سالہ شاہ محمد، 8 سالہ سعد محمد
شیر نواز بہت رحمدل اور قناعت پسند تھے، انھوں نے کبھی بھی اپنے والدین سے اپنی ضرورت سے زیادہ پیسے طلب نہیں کیے۔
ان کے والد کے مطابق شیر نواز جب بھی اپنے رشتے داروں کے گھر جاتے تھے، وہاں ان کی اچھی عادات کی بنا پر سب ان کی تعریف کرتے تھے۔
شیر نواز اپنے گھر والوں کی بھی بہت مدد کیا کرتے تھے، اسکول سے واپس آکر وہ کچن کے کاموں میں اپنی والدہ کا ہاتھ بٹاتے، برتن دھوتے، حتیٰ کہ آٹا گوندھنے میں بھی اپنی والدہ کی مدد کیا کرتے تھے۔
والدین : زیب حسین شاہ اور مرحوم سعدیہ بی بی
بہن بھائی : 15 سالہ شاہد حسین شاہ، 11 سالہ ماجد حسین شاہ ، 9 سالہ مریم ، 7 سالہ ماریہ ، ایک سالہ فواد
جب اس کی والدہ کا انتقال ہوا تو مجاہد حسین نے اپنے بہن بھائیوں کی دیکھ بھال کے لیے خود کو سنبھالا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ انہیں ماں کی کمی کا احساس ہو، اسی لیے اس نے ان پر محبت کی بارش کردی۔ اس کی سب سے چھوٹی بہن ماریہ اس کو سب سے زیادہ پسند تھی۔
وہ برقی مصنوعات کے معاملے میں بہت اچھا تھا اور کسی چیز کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہوتی تھی وہ اپنی خدمات پیش کردیتا تھا۔
والدین: مسٹر اینڈ مسز محمد اکرم شاہ
بھائی/بہن: 13 سالہ سندس شاہ ، 9 سالہ علی انیس۔
نوشہرہ کے علاقے سے تعلق رکھنے والے علی کے بارے میں ان کے والدین کہتے ہیں کہ وہ نرم مزاج کے مالک تھے اور دیگر بچوں کے مقابلے میں بہت کم فرمائشیں کرتے تھے۔
وہ اپنی دیکھ بھال بہت اچھی طرح سے کرتے تھے خاص کر اپنی جلد اور بالوں کا۔ وہ اس سلسلے میں خصوصی تیل اور کریم بھی لگایا کرتے تھے۔
وہ اپنی والدہ اور دادی سے بہت قریب تھے۔ وہ سردیوں میں اپنی دادی کا کمبل ہٹاکر پنکھا چلادیتے جبکہ وہ علی کے لیے میٹھے پڑاٹھے بڑے شوق سے بناتیں۔
والدین: مسٹر اینڈ مسز محمد اسلم
بہن/بھائی: 9 سالہ محمد زوہیب اسلم، 5 سالہ محمد ذیشان اسلم
بہن بھائیوں میں سب سے بڑے سہیل ایک ذمہ دار اور خیال رکھنے والے بچے تھے۔ وہ اپنے والدین کے انتہائی قریب اور چھوٹے بہن بھائیوں کو سنبھالنے میں مدد کرتے۔
وہ اکثر و بیشتر کچن میں اپنی والدہ کی مدد بھی کرتے۔
سہیل ایک ذہین طالب علم تھے جو سکول کے بعد لمز میں پڑھنے کی خواہش رکھتے تھے۔ انہوں نے والد کے پشاور ٹرانسفر ہونے کے بعد نومبر،2014 میں آرمی پبلک سکول جوائن کیا۔
والدین: سید فضل حسین اور صائمہ فضل حسین
بہن بھائی: 11 ماہ کا سید طالب حسنین
حسنین کے بڑے خواب تھے۔ اسے سائنس اور انجینئرنگ کا جنون تھا اور وہ کچھ ایسا ایجاد کرنا چاہتا تھا جو دنیا کو بدل کر رکھ دے۔
اس کی والدہ کے مطابق حسنین بہت ہی قابل بیٹا تھا جو ان کا گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ وہ ہر وقت مذاق اور لطیفوں کے ذریعے انہیں ہنساتا تھا۔
والدین: عطا محمد اور جٹی بی بی
بہن/بھائی: 17 سالہ مہوش نسیم، 16 سالہ خاور شہزاد، 12 سالہ محمد فراز
تنویر ایک ڈاکٹر بن کر ضلع خوشحاب میں اپنے آبائی گاؤں ناری کے لوگوں کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔
عقل مند اور ذمہ دار تنویر کے بہن بھائی ان پر بہت زیادہ انحصار کرتے تھے اور وہ بھی ہوم ورک میں اپنے بہن بھائیوں کی بخوشی مدد کرتے۔
ایک بہتر ین مقرر ہونے کے ناطے انہوں نے کئی تقریری مقابلوں میں حصہ لیا۔
والدین: ظہور احمد اور فرح ناز
بھائی بہن: 13 سالہ طاہرہ اور 2 سالہ فاطمہ
عذیر کشتی کا بہت دلدادہ تھا۔ اسے ریسلنگ کے میچز دیکھنا بہت پسند تھا اور اس نے اپنے پسندیدہ ریسلرز کی تصاویر بھی جمع کر رکھی تھیں۔
وہ ایک فرمانبردار لڑکا تھا اور بڑوں کا احترام کرتا تھا۔ وہ اپنی والدہ کے بہت قریب تھا۔
اس کے والد آج بھی وہ دن یاد کرتے ہیں عذیر ہر روز گھر کے گیٹ پر ان کا انتظار کیا کرتا تھا اور جب وہ اپنے کام سے واپس آتے تھے تو وہ ان سے لپٹ جاتا تھا۔
والدین: احمد علی، گلاب پروین
بہن بھائی: 11 سالہ ملائیکہ علی، ساڑھے 7 سالہ محمد جلال ابراہیم
محمد عزیر علی ایک بہادر بچے تھے، ان کے دوستوں کےمطابق آرمی پبلک اسکول پر حملے کے روز انھیں ایک گولی لگی اور وہ اپنے دوستوں پر گرگئے تاکہ انھیں دہشت گردوں کی گولیوں سے بچا سکیں۔
یہی وجہ ہے کہ میڈیکل رپورٹ کے مطابق اس دن عزیر کو 13 گولیاں لگیں۔
والدین: ارشاد علی اور سلمہ ارشاد
بھائی/بہن:17 سالہ عائشہ ارشاد، 14 سالہ سمیعہ، 9 سالہ محمد عزیر ارشاد، 5 سالہ محمد زبیر ارشاد
عمیر ایک فوجی کے بیٹے اور ایئر فورس کے پائلٹ بننے کے خواہش مند تھے۔
انہیں پاکستان اور دوسرے ملکوں میں زیر استعمال لڑاکا طیاروں کی معلومات اور تصاویر جمع کرنے کا شوق تھا۔
اتنی کم عمر میں بھی وہ بخوبی جانتے تھے کہ دہشت گردی کے شکار ملک میں ایک فوجی کو کس طرح کے چیلنج درپیش ہوتے ہیں۔