والدین: حوالدار (ر) محمد حسین اور افسانہ حسین
بہن/بھائی: کاشف محمود (14 سال)، عشرت فاطمہ (8 سال) اور وقاص احمد
عدنان کی والدہ ان کے خون آلود جوتے ہاتھوں میں تھامے روتی ہیں۔ عدنان اسکول سے گھر آنے کے بعد سب سے پہلے انہیں سلام کرتا اور کبھی ان کے بغیر کھانا نہیں کھاتا تھا۔
سانحہ میں شدید زخمی ہونے والا عدنان دو روز بعد رات ساڑھے آٹھ بجے جہان فانی سے کوچ کرگیا۔ ہنس مکھ اور ملنسار عدنان کے والد بتاتے ہیں کہ وہ جارحانہ مزاج رکھتا تھا لیکن کبھی کسی سے جھگڑا نہیں کیا۔ عدنان اور اس کا چھوٹا بھائی کاشف ڈاکٹر بننے کے خواہش مند تھے۔ وہ وقت کا انتہائی پابند اور فرمانبردار طالب علم تھا، جو کبھی بغیر کسی ٹھوس وجہ کے غیر حاضر نہیں ہوا۔
والدین: اورنگزیب اور ناصرہ زیب
بھائی/بہن: زراق علی (21 سال)، حمزہ علی (19 سال) اور موسیٰ زیب (13 سال)
حسن زیب ایک ذہین طالب علم تھا جس کا تعلیمی ریکارڈ انتہائی شاندار تھا۔ وہ اپنی والدہ سے قریب تھا اور کھانا ہمیشہ گھر پر ہی کھاتا۔ اس کی عمر کے زیادہ تر بچوں کی فرمائش کے برعکس حسن سبزیاں شوق سے کھاتا تھا جبکہ بریانی کا بھی شوقین تھا۔
اسے پالتو جانور پالنے کا شوق تھا اور اس نے گھر پر تین طوطے پالے ہوئے تھے جو ابھی بھی اس کے گھر پر موجود ہیں۔
حملے کے وقت حسن کا بھائی حمزہ بھی اسکول میں موجود تھا۔ حملے کے بعد وہ ڈرا ہوا اور خاموش خاموش رہتا ہے۔ مزید
والدین: آفتاب احمد اور اندلیپ آفتاب
بھائی/بہن: فروا آفتاب (14 سال) اور
معاذ آفتاب (10 سال)
حذیفہ سائنسدان بننا چاہتا تھا اور نئی نئی چیزوں پر کام کرنا پسند کرتا تھا۔ اس کی والدہ بتاتی ہیں کہ حذیفہ اکثر اپنے کھلونے جان بوجھ کر توڑ دیتا اور پھر ان کی خود مرمت کرتا۔ وہ اپنے بھائی بہنوں کے ساتھ مذاق کرتا اور ان کے کھلونے اور دیگر اشیا چھپادیتا تاہم بعد میں بتادیتا۔
نم آنکھوں کے ساتھ حذیفہ کی والدہ بتاتی ہیں کہ وہ مرچ مصالحے والے کھانے کھانا پسند کرتا تھا جبکہ بریانی اسے بہت پسند تھی۔ وہ عبدالستار ایدھی سے متاثر تھا اور اپنی جیب خرچ کبھی پوری خود پر خرچ نہ کرتا بلکہ اس سے ضرورت مندوں کی مدد بھی کرتا تھا۔ مزید
والدین : کریم خان اور روزینہ بی بی
بھائی /بہن: روشنا بی بی (27 سال)، قیصر خان (25 سال)، مریم بی بی (23 سال) اور ناصر خان )(20 سال
ملک تیمور کے ہم جماعت ساتھی بتاتے ہیں کہ اسکول پر ہولناک حملے والے دن وہ دہشت گردوں کا بہادری سے سامنا کرتے ہوئے ہلاک ہوا۔ اس نے جب پرنسپل طاہرہ قاضی پر دہشت گردوں کا حملہ ہوتے دیکھا تو، ان کی جان بچانے کے لیے چھلانگ لگائی تاہم تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ بزدل دہشت گردوں نے اسے سَر میں گولی ماری۔
چارسدہ سے تعلق رکھنے والا ملک تیمور پانچ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا جس کے باعث سب کا پیارا تھا۔ چھوٹے بھائی کو کھونے پر ملک تیمور کے بھائی بہن بالکل خاموش ہو کر رہ گئے ہیں۔ اس کی والدہ کہتی ہیں ان کا دل اپنے بیٹے کو یاد کرکے روز ٹوٹتا ہے اور وہ کبھی اسے بھلا نہیں سکیں گی۔ مزید
والدین : ملک طاہر اعوان اور صالحہ طاہر
بہن/بھائی: ملک حسن طاہر اعوان (15 سال)، عفیفہ ملک (14 سال)، ملک اوزین )(9 سال
اسامہ انتہائی مہذب اور پیارا لڑکا تھا جو اپنے خاندان اور دوستوں سے یکساں محبت کرتا تھا۔ اسامہ پاکستانی فوج میں شامل ہونے کا خواہشمند تھا مگر وہ ہمیشہ امن اور تعلیم کی بات کرتا تھا۔ اس کے والد کے مطابق اسامہ کا عقیدہ تھا کہ عسکریت پسندی کو محض تعلیم کے ذریعے ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔
وہ مطالعے کا شوقین اور جنگ سے متعلق کتابوں میں خصوصی دلچسپی رکھتا تھا۔ اس نے متعدد میڈلز اسکول کی ٹیبل ٹینس ٹیم میں کھیلتے ہوئے اپنے نام کیے جبکہ وہ اتنا ہی اچھا کرکٹر بھی تھا۔ مزید
بھائی/بہن: ملیحہ آفریدی (18 سال) اور اریبا آفریدی (10 سال)
مبین اپنی کلاس کا ایک بہترین طالب علم اور پوزیشن ہولڈر تھا، وہ ہر راہ چلتے انسان کو سلام کرتا اور یہ اس کی بچپن کی عادت تھی۔ اسے مختلف کھیلوں بالخصوص فٹبال کا بہت شوق تھا۔
مبین اپنی والدہ سے قریب تھا۔ وہ بتاتی ہیں کہ مبین ہمیشہ سچ کہا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ اس نے اپنا موبائل فروخت کرنے کیلئے آن لائن اشتہار پوسٹ کیا اور اس میں اپنے موبائل کی خرابیاں تک بیان کیں اور بتایا کہ ان کو دور بھی کیا جاچکا ہے۔ اس پر اُس کی والدہ نے کہا کہ کوئی ایسا موبائل کیوں لے گا جس میں پہلے سے خرابی موجود ہو۔ اس پر مبین نے کہا کہ اسے اس بات کی پرواہ نہیں کہ موبائل فروخت ہوتا ہے یا نہیں لیکن وہ جھوٹ نہیں بول سکتا۔ مزید
والدین: عمر کریم صادق اور سمیرا عمر
بھائی/ بہن: ڈاکٹر عنزیلا عمر (24 سال)، کامل عمر (23 سال)، حجاب عمر (22 سال)، اجمل عمر (17 سال)
مزمل بہت شرارتی تھا۔ یہاں تک کہ اس کے بھائی بہن اور والدین اس سے پریشان آجاتے۔ اسے نئے کپڑے پہننے اور تیار ہونے کا بہت شوق تھا اور وہ جینز اور ٹی شرٹ پہننا پسند کرتا تھا۔
وہ تعلیم میں بھی اچھا تھا تاہم وہ مذہبی عالم بننے کا خواہشمند تھا۔ وہ قاری بھی تھا اور حملے سے ایک روز قبل ہی اس نے سورہ مزمل حفظ کی تھی۔ وہ باسکٹ بال بھی کھیلتا تھا اور اس میں گولڈ میڈل بھی جیتا تھا۔ وہ اپنی والدہ سے کافی قریب تھا۔ مزید
والدین: مسٹر اور مسز حیات گل
بہن/بھائی: 18 سالہ فیصل، 13 سالہ ماریہ اور 11 سالہ ماہ نور فاطمہ
عمر ایک ذہین اور لائق طالب علم تھا۔ اس نے اپنے اسکول میں کئی سارے ایوارڈز اور سرٹیفکیٹس حاصل کیے تھے اور فیڈرل بورڈ کے امتحان میں ٹاپ کیا تھا۔ وہ ایک ملٹری ڈاکٹر بننا چاہتا تھا۔
اپنے بیٹے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عمر کے والدین بچوں کی طرح زار و قطار روتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں اپنے بیٹے کے بغیر ان کا ہر لمحہ دردناک ہے۔ مزید
والدین: حسین اصغر اور بی بی فضہ
بہن/بھائی: حسینہ بتول(14 سال)، بختاور بی بی(11 سال)، محمد قاسم(15 ماہ)
ندیم بہت خاموش طبع اور ذہین نوجوان تھا۔ آرمی پبلک اسکول سے قبل اس نے کرم ایجنسی کے اسویٰ پبلک اسکول میں داخلہ لیا، جہاں اس کی ذہانت کو دیکھتے ہوئے اسے سیدھا پہلی جماعت میں داخلہ دیا گیا۔ پہلی سے ساتویں جماعت تک وہ اسی اسکول میں پوزیشن ہولڈر رہا۔
ندیم کے والد کے مطابق وہ آرمی پبلک اسکول کے 1665 طلباء میں سے ٹاپ 5 طلباء میں شامل تھا۔ وہ ڈاکٹر بننا چاہتا تھا اور اسے کرکٹ کھیلنا پسند تھا۔ ندیم مذہبی رجحان رکھتا تھا اور ہمیشہ صاف ستھرا رہنا پسند کرتا تھا۔ اس کی موت کے بعد ندیم کی والدہ کو صدمے کے باعث عارضہ قلب لاحق ہوگیا۔ مزید
والدین: مثل خان اور شکریہ بی بی
بہن/بھائی: 20 سالہ فیصل، 18 سالہ سدرہ بی بی، 17 سالہ بشریٰ بی بی
شاہ فہد اپنی بہنوں کے بہت قریب تھا، وہ ایک شرارتی نوجوان تھا لیکن ان کی نگرانی میں نہایت آرام سے ہوم ورک بھی کرلیا کرتا تھا۔ شاہ فہد نے حملے سے محض 4 ماہ قبل ہی آرمی پبلک اسکول میں داخلہ لیا تھا، اِس سے قبل وہ حیات آباد کے ایک اسکول میں پڑھتا تھا، وہ اپنی آنٹی کے ساتھ رہائش پذیر تھا اور ہر 4 ماہ بعد اپنے والدین سے ملنے جایا کرتا تھا، لیکن چونکہ اس کے والدین فہد کو ہمیشہ اپنے سامنے دیکھنا چاہتے تھے، لہذا اس نے آرمی پبلک اسکول میں داخلہ لے لیا۔
شاہ فہد کے گھر والوں کو اس کی موت کا بہت صدمہ ہوا، فہد کے بارے میں بات کرتے ہوئے اس کے والد کی آنکھوں میں آنسو تھے جبکہ اس کی والدہ ابھی بھی صدمے سے نکل نہیں پائی ہیں۔ مزید
والدین: محمد سہیل خٹک اور سلمیٰ
بہن/بھائی: 14 سالہ احمد علی شاہ، 11 سالہ عائشہ گلالئی
شیر شاہ کو ترکش اور اسلامی تاریخ پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ جہاں بہت سے بچوں کو پشتو لکھنا اور پڑھنا بھی نہیں آتی تھی، شیر شاہ کو اس میں مہارت حاصل تھی۔ اسے تاریخی مقامات اور میوزیمز جانے کا بھی شوق تھا۔ اگرچہ وہ سائنس کا طالب علم تھا لیکن اسے سائنسی مضامین میں زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ وہ بڑا ہوکر صحافی بننا چاہتا تھا اور اپنے آپ کو ایک نیوز اینکر کی طرح تصور کرتا تھا۔
شیرشاہ کی والدہ خود کو بہت مضبوط کرنے کی کوشش کرتی ہیں، لیکن اس کے والد اب بھی راتوں کو اپنے بڑے بیٹے کے لیے روتے ہیں، ان کا یہی شکوہ ہے کہ آخر یہ ظلم کیوں ہوا۔ مزید
والدین: مسٹر اینڈ مسز سردار حسین
بہن/بھائی: 15 سالہ حریم سردار، 11 سالہ محمد حارث سردار، 7 سالہ محمد حسن سردار
سہیل کے والد کے مطابق ان کے بیٹے کو صاف ستھرا رہنا پسند تھا۔ وہ اپنے والد کے بہت قریب تھا جو اس کی ہر خواہش اور فرمائش پوری کیا کرتے تھے۔
وہ بڑا ہو کر ڈاکٹر بننا چاہتا تھا۔
سہیل کو اپنے پالتو طوطے سے بہت محبت تھی، وہ کھانے پینے میں نخرے نہیں کرتا تھا اور گھر میں بنی ہوئی ہر چیز کھا لیا کرتا تھا۔ مزید
والدین: سید فضل حسین اور صائمہ فضل حسین
بہن/بھائی: 11 ماہ کا سید طالب حسنین
عبد اللہ کی والدہ کے مطابق وہ ایک نہایت سنجیدہ رہنے والا نوجوان تھا، اس نے کبھی بھی لفظوں کے ذریعے اپنی والدہ سے محبت کا اظہار نہیں کیا بلکہ جب بھی انہیں دیکھتا تھا، جاکر ان کے گلے لگ جاتا تھا۔
عبد اللہ کو اس کے ہم جماعت بہت پسند کرتے تھے، وہ آرمی ڈاکٹر بننا چاہتا تھا تاکہ لوگوں کی خدمت کرسکے۔ والدہ کے مطابق عبد اللہ کو نت نئے فیشن کا بھی شوق تھا، وہ اکثر اپنے والد کو بھی بزنس کے سلسلے میں مشورے دیا کرتا تھا، جس سے سب لوگوں کے چہروں پر ایک مسکراہٹ بکھر جاتی تھی۔ مزید
والدین: سید شاہ اور کشور سلطان
بھائی/بہن: فہیم شاہ (23 سال)، ذاکر شاہ (21 سال)، رادیہ شاہ (20 سال)، سائرہ شاہ (18 سال)
ذوالقرنین نے حملے سے دو ماہ قبل ہی آرمی پبلک اسکول میں داخلہ لیا تھا۔ اس سے قبل وہ فتح جنگ کے کیڈٹ کالج کا طالب علم رہ چکا تھا۔ اس کے والدین کا خیال تھا کہ کالج ان کے گھر سے کافی دور تھا اور وہ چاہتے تھے کہ ان کا پیارا بیٹا گھر سے قریب آجائے۔
وہ وطن سے بہت محبت کرتا تھا اور ہر سال یوم آزادی کے موقع پر قومی پرچم چہرے پر پینٹ کرواتا۔ اپنی عمر کے دیگر لڑکوں کی طرح اسے کرکٹ کھیلنا، بریانی کھانا اور گاڑیوں سے خاص لگاؤ تھا۔ تاہم سب سے زیادہ فرنچ فرائز پسند تھے۔ مزید
والدین: مسٹر اور مسزمحمد صادق
ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والا عثمان صادق اپنے والدین کی اکلوتی اولاد اور ان کی آنکھوں کا تارا تھا۔ عثمان اپنے والد سے بہت مشابہت رکھتا تھا۔ اس کے والد کے مطابق عثمان ایک ذہین اور باصلاحیت نوجوان تھا، جو پڑھائی میں بہت اچھا تھا۔
عثمان کو کرکٹ کا بہت شوق تھا اور وہ اسکول اور محلے میں اپنے دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیلا کرتا تھا۔ عثمان کے والد کے مطابق اسے چٹخارے دار کھانے خصوصاً بریانی بہت پسند تھی۔ عثمان کے والدین اپنے بیٹے کی جدائی پر شدت غم سے اب بھی رو پڑتے ہیں اور خدا سے صبر اور برداشت کی دعا کرتے ہیں۔ مزید
والدین: نائب صوبیدار مظہر اور مختیار بی بی
بہن/بھائی: ناہید مظہر (23 سال)، شہزاد مظہر (21 سال)، شہباز مظہر (19 سال)، شہزادی بختاور (4 سال)
زرغام ایک سنجیدہ اور لائق طالب علم تھا، جو اپنی معلومات بڑھانے کیلئے فارغ وقت میں نصابی کتب سے ہٹ کر دوسری کتابیں پڑھتا۔وہ اپنے بہن بھائیوں کو بھی کتب بینی کی تلقین کرتا۔اس کا تعلیمی کیریئر شاندار تھا اور وہ اپنی کلاس کے ٹاپ بچوں میں شمار ہوتا تھا۔
زرغام کے والد بتاتے ہیں کہ اسے باغبانی کا بھی شوق تھا ، وہ روزانہ اپنے پودوں اور پھولوں کی دیکھ بھال کرتا۔چائے پراٹھا کاشوقین زرغام اکثر اپنی والدہ سے کسٹرڈ بنانے کی فرمائش کرتا۔وہ فوج میں شمولیت کا خواب رکھتا تھا اور والدین اسے ’ننھا سپاہی‘ پکارتے تھے۔ مزید
والدین: صوبیدار اکرام اللہ اور حمیدہ احمد
بہن/بھائی: اشفاق احمد (26 سال)، نازیہ احمد (25 سال)، شہاب احمد (23 سال)، وقاص احمد (18 سال)، اویس احمد (14 سال/سانحہ میں ہلاک ہوئے)، نمرہ احمد (8 سال)
مالاکنڈ سے تعلق رکھنے والا ذیشان کرکٹ کا دلدادہ تھا۔ وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ کرکٹ کھیلتا اور اس کے بڑے بھائی اشفاق کے مطابق وہ ایک اچھا فاسٹ باؤلر تھا۔ اساتذہ کی جانب سے ہونہار طالب علم قرار پانے والا ذیشان اچھا مقرر اور لکھاری بھی تھا۔ فاسٹ فوڈ کے دلدادہ ذیشان کو برگر کھانا پسند تھا۔
ذیشان کاچھوٹا بھائی اویس بھی سانحہ میں ہلاک ہوا۔ دونوں بھائی ایک ہی ہال میں ایک دوسرے کو بچاتے ہوئے گولیوں کا نشانہ بنے۔ ذیشان کے والد اکثر دونوں بھائیوں کی باتوں اور قصوں کو یاد کر کے آبدیدہ ہو جاتےہیں۔ مزید