والدین:ارشد علی اور ناہید ارشد
بہن بھائی : 19 سالہ راشد علی، 18 سالہ شاکر علی، 14 سالہ مشعل ارشد، 12 سالہ سلینا ارشد اور 10 سالہ زراق خان
بلال ارشد ہمیشہ سے پاک فوج میں بطور کمیشن آفیسر شمولیت کی خواہش رکھتا تھا۔ ایک قابل ایتھلیٹ، اسے والی بال اور بیڈ منٹن کھیلنے میں مزہ آتا تھا اور اس نے دونوں گیمز میں متعدد اعزازات جیتے تھے۔
وہ نظم و ضبط کا پابند تھا اور علی الصبح اٹھ کر اپنے گھر والوں کو بھی ایسا کرنے کا کہتا۔ وہ بے عیب شخصیت کو برقرار رکھتا اور پہننے کے لیے ملبوسات کے حوالے سے کافی سوچ بچار کے بعد فیصلہ کرتا۔
والدین : زابت خان اور شبنم
بہن بھائی : 19 سالہ رومان خان درانی، 17 سالہ سیما، 15 سالہ صبا درانی، 13 سالہ ثناءدرانی، 11 سالہ ہما درانی، 8 سالہ جبران خان درانی، 8 سالہ جیسمن درانی
صاحبان سنجیدہ طبع نوجوان تھا اور اپنی کلاس میں ٹاپ پر آتا۔ وہ کمیشن آفیسر کی حیثیت سے فوج میں جانے کا خواہشمند تھا اور اس مقصد کے لیے اپنی تعلیم پر توجہ دیتا تھا۔ بعض اوقات وہ رات گئے تین بجے تک بھی جاگتا رہتا، اپنے اسباق کو دوہراتا اور اسکول کے اگلے دن کی تیاری کرتا۔
وہ اپنی والدہ شبنم کے قریب تھا، صاحبان انہیں بتاتا کہ وہ ان کے ساتھ کھڑا ہوگا" اس دنیا اور اگلے جہاں میں بھی"۔ وہ اپنے دیگر بزرگوں کا بھی بہت احترام کرتا تھا۔
والدین : مسٹر اور مسز عتیق اختر
بہن بھائی : 16 سالہ احمد جان، 12 سالہ ملائکہ ارمان، 10 سالہ رزاق خان
ایمل خان ہمیشہ حیران ہوتا تھا کہ آخر اس کے شہر کے انتہائی محنتی لوگ گلیوں میں سونے پر کیوں مجبور ہیں۔ اس کے والد کے مطابق یہ نوجوان ہمیشہ ایسے افراد سے ہمدردی کا اظہار کرتا اور اکثر بات کرتا کہ وہ کس طرح دنیا کو تبدیل کرنا چاہتا ہے۔
ایمل غریب افراد کو اکثر خوراک فراہم کرتا اور رمضان کے دوان وہ اس بات کو یقینی بناتا کہ اس کے علاقے کی تمام پولیس چیک پوسٹس میں افطار کے لیے راشن بھیجا جائے۔
والدین : زاہد رشید اور شاہدہ بانو
بہن بھائی : 15 سالہ محمد اذکار زاہد، 11 سالہ محمد ابصار زاہد
اپنے بھائیوں میں سب سے بڑا ابرار ایک سخت محنت کرنے والا طالبعلم اور ذمہ دار نوجوان تھا۔ اس کے والد بتاتے ہیں کہ جب ان کا بیٹا زندہ تھا تو انہیں اپنے چھوٹے بچوں کی فکر نہیں کرنا پڑتی تھی کیونکہ ابرار ان کا خیال والدین کی طرح رکھتا تھا۔ وہ اپنی والدہ کی بھی زیادہ دیکھ بھال کرتا تھا اور اکثر ان کے ساتھ سودا سلف لینے کے لیے جاتا یا انہیں طبی چیک اپ کے لیے ہسپتال لے جاتا۔
اسے کمپیوٹر ہارڈو ویئر اور سافٹ ویئر کا شوق تھا اور آگے جاکر ایک انجنیئر بننے کی توقع کرتا تھا۔
والدین: مسٹر اینڈ مسز نثار علی
عمران علی کے حوالے سے جاننے کے لیے اس کے والدین سے رابطہ نہیں ہوسکا۔
عمران اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔ عمران کی ٹیچر مس اندلیب آفتاب بتاتی ہیں کہ وہ کرم ایجنسی کے ایک معمولی گھر سے تعلق رکھتا تھا، وہ اپنے اہلخانہ سے دور پشاور کے ایک مقامی ہوسٹل میں رہتا تھا۔ اس کی والدہ سلائی کڑھائی کرکے اس کے سارے تعلیمی اخراجات برداشت کرتی تھیں۔
عمران کی ٹیچر کہتی ہیں کہ وہ اپنی کلاس کا سب سے خوبصورت لڑکا تھا او ر اگر آج وہ زندہ ہوتا تو ڈاکٹر بننے کا اپنا خواب ضرور پورا کرتا۔
والدین: محمد امین اور زرشیدہ
بہن/ بھائی: 27 سالہ وقار امین، 25 سالہ سعید امین، 23 سالہ دل آویز، 17 سالہ عامر امین،12 سالہ اسفندریار امین۔
سنجیدہ مزاج کے حامل اسحاق ایک مخلص طالب علم اور سائنس میں دلچسپی رکھتے تھے۔ سبھی ان کی بہت عزت کرتے تھے لیکن جب کوئی انہیں لالا کہہ کر پکارتا تو وہ بہت خوش ہوتے اور پکارنے والے کو چھوٹا سمجھ کر برتاؤ کرتے۔
اسحاق اپنے چھوٹے بھائی عامر اور دو دوستوں کے انتہائی قریبی تھے۔
والد کا نام: عبد الکریم
محمد عمران کے حوالے سے جاننے کے لیے اس کے والدین سے رابطہ نہیں ہوسکا۔
عمران کے اساتذہ کہتے ہیں وہ ایک شرمیلا اور خاموش طبع طالب علم تھا۔ وہ آرمی پبلک اسکول کے ٹیچر الطاف حسین کا سب سے پسندیدہ طالب علم تھا، جو عمران کے بارے میں کہتے ہیں کہ انہیں اس میں کوئی خامی نظر نہیں آتی تھی۔
عمران آٹوموٹیو انجینئر بننا چاہتا تھا۔
والدین : حولدار اول شاہ اور رضیہ صنم
بہن بھائی : 28 سالہ نوید، 25 سالہ داﺅد، 22 سالہ زینب بی بی، 15 سالہ نعمان، 10 سالہ فیصل
ذیشان کے والدین کا کہنا ہے کہ وہ اللہ کا تحفہ تھا۔ وہ گرم جوش دل کا مالک اور لطائف کا شوقین تھا۔ وہ اپنی والدہ کے قریب تھا اور ان کے ساتھ اپنے مسئلے پر تبادلہ خیال کرتا تھا۔
چونکہ اس کا گھر اسکول سے بہت دور تھا، اسی لیے ذیشان ہوسٹل میں مقیم تھا۔ اسے دیگر طالبعلموں کے ساتھ کرکٹ کھیلنا پسند تھا۔ وہ ایک اچھا فاسٹ باﺅلر تھا اور اسی وجہ سے وہ اسکول کی کرکٹ ٹیم کا کپتان تھا۔
والدین : صوبیدار نور رحمان اور حفیظہ بیگم
بہن بھائی: 25 سالہ شیر، 21 سالہ صابرہ ، 15 سالہ اعجاز، 13 سالہ جویریہ، 11 سالہ بلال
شفیق ایک فوجی ڈاکٹر بننا چاہتا تھا۔ وہ اچھے گریڈز کے لیے دن رات محنت کرتا اور اے پی ایس حملے میں جاں بحق ہونے سے قبل نسٹ کے میڈیکل ٹیسٹ کی تیاری کررہا تھا۔
وہ بہت فیاض دل کا مالک تھا۔ ایک بار اس نے اپنے والد سے اپنے ایک کلاس کے ساتھی کی اسکول فیس ادا کرنے کا کہا تھا جو ایسا کرنے سے قاصر تھا۔
اسے کرکٹ کھیلنے سے محبت تھی۔ وہ ایک زبردست باﺅلر اور بلے باز تھا جس نے پشاور کے قیوم کمپلیکش کرکٹ کلب میں جگہ حاصل کرلی تھی۔
والدین : لانس نائیک شیر نواز خٹک اور نیک پری
بھائی: 24 سالہ ناصر، 21 سالہ قیصر، 14 سالہ مدثر، 11 سالہ شیراز، وقاص 8 سالہ ، 7 سالہ فیضان
اے پی ایس پر حملے کے وقت یاسر اسکول آڈیٹوریم میں تھا۔ جب فائرنگ شروع ہوئی تو وہ نیچے فرش پر لیٹ گیا اور محفوظ ہوگیا۔ مگر جب اس نے دیکھا کہ اس کے ایک بہترین دوست کو گولی مار دی گئی ہے اور بہت زیادہ خون بہہ رہا ہے تو وہ اٹھا اور اسے اسکول سے باہر لے جانے کی کوشش کررہا تھا جب حملہ آوروں سے اس کا سامنا ہوگیا۔
اس کے والد بتاتے ہیں کہ یاسر ان کے تمام بچوں میں سب سے مہذب اور نرم لہجے کا مالک تھا۔ وہ اپنے بڑے بھائی ناصر کے قریب تھا اور وہ دونوں بھائی سے زیادہ بہترین دوست لگتے تھے۔
والدین: کوثر اعجاز اور زکیہ یاسمین
بہن/بھائی: 13 سالہ حامد اعجاز
اساتذہ،ہم جماعت اور رشتہ دار سبھی ماہر کے مداح اور انہیں فرمابردار، عقل مند سمجھتے تھے۔
ماہر کے گھر والے جہلم کے ایک گاؤں کے باسی تھے جبکہ وہ آرمی پبلک سکول میں پڑھتے اور یہاں کے ہوسٹل میں رہتے تھے۔
ماہر ایک ڈاکٹر بننا چاہتے تھے تاکہ اپنے گاؤں کے غریب لوگوں کی خدمت کر سکیں۔
بہن بھائی : 18 سالہ عبدالقدوس خان، 15 سالہ عبدالقدیر خان، 13 سالہ عمرہ بی بی، 8 سالہ سارہ بی بی، 3 سالہ ولی اللہ
والدین : خالد خان اور گلناز بیگم
چھ بچوں میں سب سے بڑا محمد داﺅد فوجی افسر کی حیثیت سے قوم کی خدمت کے خواب دیکھتا تھا۔
اپنے چھوٹے بہن بھائیوں میں ' لالہ جی' کے نام سے معروف داﺅد وقت کا پابند، نظم و ضبط اور مطالعہ پسند تھا جسے ہاﺅس کیپٹن بنایا گیا تھا۔
اس کے والد بتاتے ہیں داﺅد ایک اچھا مقرر، مصنف اور مطالعے کا شوقین تھا جس نے متعدد میڈلز اور سرٹیفکٹس حاصل کیے۔ اس کے پسندیدہ مضمون بائیولوجی تھا اور وہ ہمیشہ اپنی کلاس میں نوے فیصد سے زیادہ نمبرز لیتا۔
والدین : میجر ریٹائرڈ شیر غنی اور عفت قمر
بہن بھائی : 30 سالہ امبرین غنی، 25 سالہ عدنان غنی، 25 سالہ سحرش غنی 22 سالہ مہوش غنی
" ہمارا کالج حملے کی زد میں ہے، فائرنگ ہورہی ہے، پلیز دعا کریں "، یہ وہ آخری پیغام ہے جو ثاقب غنی نے اپنی والدہ کو بھیجا۔
ثاقب کا کزن اسفندیار بتایا ہے کہ وہ مستحقین کی مدد کرتا تھا۔ جب اسے 10 ویں کلاس میں پہنچا تو اسے معلوم تھا کہ اس کی کلاس کا ایک ساتھی نئے یونیفارم کو لینے سے قاصر ہے، اپنے والدین کو آگاہ کیے بغیر ثاقب نے ایک نیا یونیفارم خریدا اور اپنے کلاس کے ساتھی کو تحفہ دے دیا۔
والدین : مسٹر اور مسز محمد اقبال
بھائی بہن : 24 سالہ اقصیٰ اقبال اور 22 سالہ محمد حارث اقبال
زین ایک ذمہ دار اور محنتی طالبعلم تھا۔ وہ اپنے کام اور تدریسی سرگرمیوں کے لیے ایک روزانہ کے شیڈول پر سخت محنت کرتا تھا جس کی وجہ سے وہ اپنی کلاس کا بہترین طالبعلم مانا جاتا تھا۔ زین کے والد کا کہنا ہے کہ میرا بیٹا ایک بہت چھوٹے ہال میں دہشتگردوں کا نشانہ بنا جسے وہ اپنی بائیولوجی کی کلاس کے پریزینٹیشنز کے لیے استعمال کرتا تھا۔ اس کے خاندان نے زین کو ہر دعوت کی جان قرار دیتے ہوئے بتایا کہ اس کے اساتذہ اکثر کہتے تھے کہ وہ اسکول کی جان ہے۔
والدین: مسٹر اینڈ مسز غیاث الدین آفریدی
بہن/ بھائی: 30 سالہ الوینہ غیاث، 29 سالہ ڈاکٹر عامر اعظم آفریدی اور 28 سالہ سکندر اعظم آفریدی
شرارتی اور من موجی اعظم ایک مرتبہ سکول کی کمپیوٹر لیب میں گئے اور تمام کمپیوٹرز پر پانی ڈال دیا۔
بعد میں غصے سے بھپرے ٹیچر کے استفسار پر اعظم نے اپنی شرارت تسلیم کی،جس پر انہیں آٹھ ہزار روپے جرمانہ عائد کر دیا گیا۔
وہ پڑھنے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے تھے مگر مارشل آرٹس اور ویٹ لفٹنگ کے جنون نے انہیں کئی تمغے اور سرٹیفیکٹس جیتنے کا موقع دیا۔
والدین : حولدار محمد ارشاد آصف
وسیم اقبال کے خاندان سے حالات زندگی جاننے کے لیے رابطہ نہیں ہوسکا۔
وسیم اقبال کو اس کے اساتذہ نے ایک خوش باش خوش قسمت طالبعلم قرار دیا ہے۔ وہ ایک متحرک اور توانائی سے بھرپور نوجوان تھا جس سے اس کے تمام اساتذہ کو محبت تھی۔
وہ کرکٹ کا شوقین اور اس کھیل کا اچھا کھلاڑی تھا۔