Dawn.com
Official account of the Dawn Media Group.
والدین: رجب علی اور رقیہ بی بی
بہن بھائی: 29 سالہ منتظر حسین، 25 سالہ عارف حسین، 23 سالہ جمشید علی اور 18 سالہ ساجدہ حسین
ابرار کو کھانے پینے کا زیادہ شوق نہیں تھا اور نہ ہی وہ گھر میں پکے کھانے کی کبھی کوئی شکایت کرتا تھا۔
ابرار چونکہ اسکول کی کتابوں میں گم رہتا تھا، اس لیے وہ ہم نصابی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیتا تھا۔ تاہم گھر سے دور، ہوسٹل میں رہنے والا ابرار پڑھائی میں بہت ہوشیار تھا اور مسلسل 9 سالوں تک امتحانات میں پہلی پوزیشن حاصل کرتا رہا۔ وہ جب بھی چھٹیاں گزارنے اپنے گاؤں آتا، دوستوں کے ساتھ کھیلنے کے بجائے پڑھائی میں مصروف رہتا۔
والدین: محفوظ الہٰی اور سُمیر صدیقی
بہن بھائی: 17 سالہ فصیحہ الہٰی اور 13 سالہ محمد الہٰی
احمد پوزیشن ہولڈر اور سرجن بننے کا خواہشمند تھا۔ اس کی والدہ کہتی ہیں کہ وہ مذہبی تھا اور تمام وقت کی نماز باقاعدگی سے مسجد میں ادا کرتا تھا، وہ مسجد میں جماعت سے قبل ہی پہنچنے کی کوشش کرتا تھا تاکہ اذان دے سکے۔
وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنا پسند کرتا تھا لیکن جس چیز سے اسے سب سے زیادہ پیار تھا، وہ اس کے طوطے تھے اور وہ حملے سے چند قبل ہی ان کے لیے نیا پنجڑا خرید کر لایا تھا۔
والدین: ایم انور خان اور نایاب انور
بہن بھائی: 18 سالہ اقرا انور، 16 سالہ جویریہ انور اور 9 سالہ احمد مرتضیٰ
احمد مجتبیٰ ایک شرمیلا اور خاموش مزاج لڑکا تھا۔ اس کے سب سے اچھے دوست اس کے بہن بھائی ہی تھے۔ اسے کھیلوں کا جنون تھا اور صرف کرکٹ کھیلتے وقت ایسا موقع ہوتا تھا، جب وہ بالکل بھی نہیں شرماتا تھا۔
احمد مجتبیٰ پاکستان آرمی میں بطور ڈاکٹر شمولیت حاصل کرنا چاہتا تھا۔
والدین : مسٹر اینڈ مسز دوست محمد
بہن بھائی : 31 سالہ طارق عزیز، 29 سالہ لیاقت عزیز، 26 سالہ طاہر عزیز، 24 سالہ راشد عزیز، 21 سالہ شاہد عزیز، 19 سالہ آسیہ بی بی
2013 کے موسم گرما میں اسد اور اس کا خاندان تفریح کے لیے دریا کے کنارے گیا۔ یہ نوجوان لڑکا دیر تک تیراکی کے بعد پانی سے باہر نکلا ہی تھا کہ اس کا کزن ذیشان ایک لہر میں پھنس کر ڈوبنے لگا۔ اپنے اعصاب کو قابو میں رکھتے ہوئے اسد نے پانی میں چھلانگ لگائی اور کچھ جدوجہد کے بعد اپنے کزن کو زندہ نکالنے میں کامیاب رہا۔
وہ ایک نجات دہندہ تھا۔
والدین: اجون خان اور شاہانہ بی بی
بہن بھائی: 5 سالہ محمد وادان خان اور 12 سالہ ماہ روشا خان
اسفند ایک خاموش طبع لیکن پراعتماد نوجوان تھا، جس کی خواہش تھی کہ وہ وکیل بنے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ڈرائیونگ اور جم میں ٹریننگ کا بھی شوقین تھا۔ تاہم اپنے دیگر ہم عمر لڑکوں کے برعکس وہ خود میں مگن رہتا تھا۔
اسفند تنہائی پسند تھا اور زیادہ وقت اپنے کمرے میں گزارنا پسند کرتا تھا۔ اسفند کی ان ہی عادات کی بدولت بڑے اور بچے سب انھیں پسند کرتے تھے۔
والدین: لیفٹیننٹ کرنل گلریز احمد خان اور نوشین گلریز
بہن/بھائی: 9 سالہ حسان احمد خان،19 سالہ زریاب احمد خان
بہرام کا نام ایک بہادر افغان بادشاہ سے متاثر ہو کر رکھا گیا اور ان کے والد بھی بہرام کو ایک نڈر بچے کے طور پر یاد کرتے ہیں۔
لکی مروت سے تعلق رکھنے والے بہرام ایک ڈاکٹر بن کر غریبوں کی جانیں بچانے کا جذبہ دل میں رکھتے تھے۔ ہمدردانہ دل رکھنے والے بہرام کہیں بھی سانحہ یا قدرتی آفت پر دہل جاتے ۔
گاڑیوں کے دلدادہ بہرام اکثر اپنے دوستوں کے ساتھ لانگ ڈرائیو پر چلے جاتے۔انہیں جب بھی وقت ملتا وہ موسیقی سنتے اورعام معلومات پر مبنی کتابیں پڑھتے۔
والدین کا نام: سردار علی ، صدف سردار
بہن بھائی: 18 سالہ کرن سردار، 16 سالہ ارم سردار، 12 سالہ بشارت علی سردار
خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی کے گاؤں شاوا سے تعلق رکھنے والے باسط علی سردار کوئی عام نوجوان نہیں تھے۔
اُن کی والدہ کے مطابق وہ ایک ایسے فرمانبردار بیٹے تھے جو گھر کے کاموں، خصوصاً کچن میں ان کا ہاتھ بٹایا کرتے تھے ۔
باسط اپنی والدہ سے پوچھا کرتے تھے کہ انھیں کسی کام مثلاً برتن دھونے یا سبزیاں کاٹنے میں ان کی مدد کی ضرورت تو نہیں بلکہ وہ اکثر مہمانوں کے لیے بھی چائے اور کھانا وغیرہ بنا لیا کرتے تھے۔
والدین : جلال بیار اور سیدہ بیگم
بہن بھائی : 30 سالہ حسن حسرت جبیں، 29 سالہ اسفندیار ، 28 سالہ شہریار ، 27 سالہ سیار، 26 سالہ ارشن یار، 18 سالہ نویدہ ، 17 سالہ کاشف، 16 سالہ طائف
حملے کے دن فرحان نے چھلانگ لگا کر اپنے بھائی کو اس وقت بچایا جب اس نے حملہ آوروں کو آڈیٹوریم کے اندر آتے ہوئے دیکھا۔ جب فائرنگ شروع ہوئی تو فرحان نے طائف کو فرش کی جانب دھکا دیا اور اس کے اوپر لیٹ کر بھائی کو بچالیا۔
اس کے والد کے مطابق فرحان ان کے نو بچوں میں سب سے نمایاں تھا۔ وہ سب سے چھوٹا ضرور تھا مگر سب سے زیادہ ذہین اور متحرک تھا۔ وہ طائف کے بہت زیادہ قریب تھا جو اس سے ایک سال ہی بڑا تھا۔
والدین کا نام : محمد ریاض اور رخسانہ ریاض
بہن بھائی: 18 سالہ محمد حمزہ، 13 سالہ محمد عاصم، 6 سالہ محمد حارث، 12 سالہ مریم
آرمی پبلک اسکول پر حملے میں جان کی بازی ہارنے والے محمد وقار ایک ذہین طالب علم تھے، جنھیں اپنی کتابوں کو صرف ایک مرتبہ دیکھنے کی ضرورت پڑتی تھی اور اُس کے بعد وہ انتہائی شاندار ایگزام دے کر اپنے اسکول میں پوزیشن حاصل کرلیتے تھے۔
وقار یہ بات بھی اچھی طرح جانتے تھے کہ صرف کتابی کیڑا بننے سے کام نہیں چلے گا، یہی وجہ ہے کہ وہ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے، انھوں نے بہت سی کامیابیاں اپنے نام کیں۔
والدین: محمد اور صوفیہ امین
بہن/بھائی: صبا (19)، لائقہ (8) اور 6 سالہ لائبہ
حیدر اپنی بہن صبا کے انتہائی قریب تھے۔ صبا بتاتی ہیں کہ وہ انتہائی ڈسپلن تھے جو آج کا کام کبھی کل پر نہ چھوڑتے۔
حیدر ایک لائق طالب علم اور فوج میں شمولیت کے خواہش مند تھے۔ انہیں عسکری ویڈیوز دیکھنے کا شوق تھا۔
حیدر سکول کے ساتھ ساتھ گھر کے قریب میدان میں فٹبال شوق سے کھیلتے۔
حیدر کی بہنیں آج بھی انہیں یاد کر کے روتی ہیں۔
والدین: کوثر علی کاکڑ اور سلمیٰ جاوید
بہن بھائی: 11 سالہ سارا علی کاکڑ اور 18 سالہ عائشہ علی کاکڑ
اپنے دیگر ہم عمر لڑکوں کی طرح حمزہ بھی فاسٹ فوڈ کے شوقین تھے، جنھیں باربی کیو کھانوں اور پزا کے ساتھ ساتھ چکن تکہ، بریانی اور سیخ کباب بھی پسند تھے۔
اس کے ساتھ ساتھ وہ میٹھے کے بھی شوقین تھے اور چاکلیٹس، کیکس اور آئس کریم کھانا پسند کرتے تھے۔
حمزہ کو شہر سے باہرسفر کرنے کا بھی شوق تھا اور وہ مہینے میں ایک مرتبہ نتھیا گلی ضرور جاتے تھے۔
والدین: لیفٹینیٹ کرنل سکندر حیات اور مسز حیات
بہن/بھائی: 11 سالہ حرا سکندر، 9 سالہ حمزہ سکندر
ایک فوجی افسر کے بیٹے ہونے کے ناطے حب الوطنی اور قوم کی خدمت کا جذبہ حیات اللہ کے خون میں دوڑتا تھا۔
حیات اللہ فوج میں شمولیت کے خواہش مند تھے لیکن ان کووالدین انہیں ڈاکٹر دیکھنا چاہتے تھے۔
حیات کے والد لیفٹیننٹ کرنل سکندر نے بتایا کہ انتہائی پراعتماد حیات کیلئے دانشورانہ گفتگو سے بزرگوں کو متاثر کرنا بائیں ہاتھ کا کام تھا۔
والدین: محمد حسین، دلشاد بی بی
بہن بھائی: 12 سالہ محمد عبداللہ، 5 سالہ محمد ابوبکر
تین بھائیوں میں سب سے بڑے محمد علی رحمٰن ایک ذہین طالب علم تھے، جنھیں انگریزی الفاظ میں مہارت حاصل تھی اورانھوں نے الفاظ کے کئی مقابلے جیت رکھے تھے۔
محمدعلی رحمٰن فارغ وقت میں کرکٹ کھیلتے یا دیکھتے تھے۔
علی رحمٰن کے والد کے مطابق آرمی پبلک اسکول پر حملے سے ایک دن قبل ان کے بیٹے نے نوٹ بک خریدنے کے لیے پیسے مانگے، جو انھوں نے علی رحمٰن کو رات کو دیئے اور صبح اسکول کے لیے گھر سے نکلتے ہوئے علی نے اپنے والد کا شکریہ بھی ادا کیا۔
والدین : لیفٹننٹ کرنل ریٹائر ابراہیم خان شنواری اور راحیدہ بیگم
بہن بھائی : 21 سالہ سلمان خان، محمد ارسلان خان اور دو بہنیں۔
ڈاکٹر بننے کا خواہشمند محمد عمار خان اپنی برادری اور آبائی علاقے لنڈی کوتل کے لوگوں کی خدمت کرنا چاہتا تھا۔ جب خیبر ایجنسی میں فوجی آپریشن شروع ہوا جس کا مرکزی قصبہ لنڈی کوتل ہے، عمار کو وہاں رہنے والوں کی بہت زیادہ فکر ہونے لگی جو اس صورتحال میں تحفظ کے لیے کچھ زیادہ نہیں کرسکے۔
اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے عمار کو مختلف مقامات کی سیر کا بہت شوق تھا۔ اسے پہاڑی اور برفانی علاقوں میں جاکر بہت مزہ آتا تھا۔ وہ اکثر اپنے دوستوں کے ساتھ پکنکس اور تقاریب کا انتظام کرتا اور مری جانے کی بھی منصوبہ بندی کی، مگر یہ دورہ التواءکا شکار ہوگیا۔
والدین: ایس ایم غلام مرتضیٰ ریٹائرڈ اور فضیلت جان
بہن بھائی : 29 سالہ غلام مجتبیٰ، 27 سالہ یاسین اختر، 25 سالہ نورین اختر، 23 سالہ غلام یاسین، 20 سالہ احسن مرتضیٰ، 15 سالہ منیرہ مرتضیٰ، 13 سالہ سیف اللہ، 9 سالہ زوبیہ مرتضیٰ
نو بہن بھائیوں کے خاندان کا حصہ محسن اپنی شاندار خوبیوں کی بناءپر نمایاں نظر آتا تھا۔ وہ نیک اور دیانتدار تھا اور ضرورت مندوں کی مدد کرنا اسے پسند تھا۔
تدریسی سرگرمیوں میں شاندار کارکردگی کی بدولت اس نے متعدد انعامات جیتے۔ وہ کرکٹ اور فٹبال کھیل کر خوب لطف اندوز ہوتا۔ محسن نماز کے راستے میں کسی چیز کو آڑے نہیں دیتا اور کافی مذہبی جوش و خروش کا حامل تھا۔
والد: سپاہی (ر) محمد عارف
شفقت کے والدین سے رابطہ نہیں ہو سکا لیکن ان کے ٹیچر بتاتے ہیں کہ وہ ایک دھیمے مزاج کے
ہونہار طالب علم تھے، جو اپنے والد کی طرح فوج میں شامل ہونے کا خواب رکھتے تھے۔
محنتی شفقت نے کبھی ساتھی طالب علموں کو تنگ نہیں کیا اور ہمیشہ اپنی توجہ پڑھائی پر رکھی۔ مزید
والدین: حوالدار محمد اسماعیل اور ساجدہ کلثوم
بہن/بھائی: 17 سالہ اقرا مصطفوی، 6 سالہ فضا مصطفوی اور 5 سالہ قرہ العین فاطمہ
سریلی اور مدھر آواز کے مالک طاہر کو اکثر و بیشتر سکول میں قومی ترانہ گانے کیلئے منتخب کیا جاتا۔
طاہر کے والد نے بتایا کہ وہ کمپیوٹر اور آئی ٹی میں مہارت رکھتے اور بڑے ہو کر انجینئر بننے کے خواہش مند تھے۔
ہونہار طاہر عموماً کلاس میں 80 فیصد سے زائد نمبر حاصل کرتے۔ انہیں کرکٹ، فٹبال اور کمپیوٹر گیمز کا شوق تھا۔
والدین : خالد شکیل اور نگہت یاسمین
بہن بھائی : 18 سالہ شہریار، 11 سالہ عمیر
اپنے والدین کی دوسری اولاد عذیر ایک محنتی طالبعلم تھا جو ڈاکٹر بننا چاہتا تھا۔
اس کی آواز بہت خوبصورت تھی اور اسے اکثر اسکول میں ہونے والی تقاریب میں قرآن مجید کی تلاوت کے لیے منتخب کیا جاتا تھا۔ حملے کے دن بھی عذیر نے اپنے اساتذہ اور دوستوں کے کہنے پر تلاوت کی تھی۔
والدین: ذوالفقار اور ریحانہ
بہن/بھائی: 14 سالہ جویریہ ذوالفقار، 10 سالہ زونیرہ ذوالفقار، ساڑھے تین سالہ محمد جسیم
بہن بھائیوں میں سب سے بڑے معظم ایک ذمہ دار اور فرمانبردار بیٹے تھے۔ محنتی اور لائق معظم کلاس سرگرمیوں مثلاً سٹیج اورخاکوں میں بھرپور انداز میں حصہ لیتے۔
اپنی والدہ اور دادی کے انتہائی قریب معظم فٹبال کے دیوانے اور کرسٹیانو رونالڈو اور لیونل میسی کے بڑے مداح تھے۔
والدین: محمد آصف ، افشاں آصف
بہن بھائی: 7 سالہ عائشہ (لے پالک) ، 2 سالہ فاطمہ (لے پالک)
محمد یاسین ہمیشہ خوش رہنے والے ایک نرم دل نوجوان تھے جو دوسروں کے مسائل توجہ سے سنتے تھے، انھیں اپنے سے کم حیثیت لوگوں کی مدد کرکے خوشی ہوتی تھی اور وہ اکثر وبیشتر گھریلو ملازمین اور چوکیدار وغیرہ کے ساتھ کھانا کھانے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔
محمد یاسین کے والدین نے اس وقت کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ جب 7 سال کی عمر میں انھیں تاوان کے لیے اغواء کرلیا گیا تھا اور وہ11 رو تک گھر نہیں آئے تھے۔ اس واقعے کے بعد سے انھوں نے کبھی یاسین کواکیلے گھر سے باہر نہیں جانے دیا۔
فارغ وقت میں محمد یاسین کا پسندیدہ کام لیپ ٹاپ پر گیمز کھیلنا تھا، انھوں نے خود سے ایک فیس بک پیج بھی بنا رکھا تھا اور کزنز اور دوستوں سے اسے لائیک کرنے کو کہا تھا، ان کا خیال تھا کہ اس طرح سے وہ مشہور ہوجائیں گے۔
والدین: تحسین اللہ درانی اور فلک ناز
بھائی بہن: 19 سالہ ثنا، 17 سالہ حفصہ اور 11 سالہ عمارہ
نور اللہ درانی اپنی فیملی سے بہت قریب تھا۔ اس کی بہن کہتی ہیں کہ جب وہ ایک ہی اسکول میں تھے، تب نور اللہ اپنے دوستوں کو کینٹین سے چیزیں لے کر کھلاتا جس کا بل اس کی بہن کو ادا کرنا پڑتا تھا۔
وہ ڈاکٹر بننا چاہتا تھا اور کمپیوٹر میں بہت ذہین تھا۔
نور اللہ کے والد کہتے ہیں کہ وہ کمپیوٹر میں آنے والی ہر خرابی کا حل جانتا تھا اور علاقے میں ’کمپیوٹر ماسٹر‘ کہہ لایا جاتا تھا۔ ان کے پڑوسیوں کے کمپیوٹر میں جب بھی کوئی خرابی آتی، وہ نور اللہ سے ٹھیک کرنے کی درخواست کرتے تھے۔
والدین: ظفر اقبال اور سیمہ شہوار
بھائی بہن: 13 سالہ فاطمہ ظفر، 12 سالہ عائشہ ظفر اور 10 سالہ طلحہٰ ظفر
اسامہ کے گھر والے کہتے ہیں کہ وہ ایک فرمانبردار بیٹا تھا۔ وہ سخی دل تھا اور چوکیدار سے ہمیشہ ان کی صحت سے متعلق دریافت کرتا تھا اور اس بات کا خیال رکھتا تھا کہ انہیں وقت پر کھانا مل جائے۔
اسامہ کے والد اپنے بیٹے سے متعلق یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ پشاور کے سی ایم ایچ ہسپتال میں 15 سال قبل منگل کے دن پیدا ہوا، جبکہ اس کی وفات بھی اسی ہسپتال میں منگل کے دن ہی ہوئی۔
والدین: عابد رضا بنگش اور شازیہ
بھائی: مرتجز رضا بنگش
پشاور کے علاقے حیات آباد کا رہائشی رفیق، بہت شائستہ اور دوسروں کا احترام کرنے والا لڑکا تھا۔ جو لوگ رفیق کو جانتے تھے انہیں اس کی سانحے میں شہادت کا ایسا ہی دکھ و غم ہوا جیسے اس کے اہلخانہ کو تھا۔
وہ مذہبی ذہن رکھتا تھا اور اپنے والد سے اکثر پوچھا کرتا تھا کہ معاشرے میں دہشت گردی اور فرقہ واریت کیوں ہے۔ وہ تمام فرقے کے ماننے والوں کو متحد دیکھنا چاہتا تھا۔
والدین: زاہد عبداللہ شاہ ، مسز زاہد
بہن بھائی: 19 سالہ عباد الرحمٰن، 10 سالہ معاذ الرحمٰن
پشاور کے علاقے حیات آباد کا رہائشی رفیق، بہت شائستہ اور دوسروں کا احترام کرنے والا لڑکا تھا۔ جو لوگ رفیق کو جانتے تھے انہیں اس کی سانحے میں شہادت کا ایسا ہی دکھ و غم ہوا جیسے اس کے اہلخانہ کو تھا۔
وہ مذہبی ذہن رکھتا تھا اور اپنے والد سے اکثر پوچھا کرتا تھا کہ معاشرے میں دہشت گردی اور فرقہ واریت کیوں ہے۔ وہ تمام فرقے کے ماننے والوں کو متحد دیکھنا چاہتا تھا۔
والدین: شوکت علی (مرحوم)، خالدہ علی
بہن: 18 سالہ صبا گل
لوئر دیر کے ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والے شہباز علی کے خاندان کو دو صدموں سے گزرنا پڑا، جب آرمی پبلک اسکول پرحملے کے نتیجے میں شہباز کی موت سے ایک سال قبل ان کے والد اور گھر کے سربراہ کا بھی انتقال ہوگیا۔
شہباز اور ان کے والد دونوں کی وفات کے بعد ان کی والدہ اور بہن کو پشاور سے واپس اپنے گاؤں منتقل ہونا پڑا۔
والدین: طارق جان اور شگفتہ
بہن/بھائی: 18 سالہ مہوش طارق ، 13 سالہ سہیل طارق ، اور 7 سالہ سویل طارق
شموویل کے والد ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ ایک سمجھدار اور ذمہ دار نوجوان تھے۔ وہ بڑوں کا احترام کرتے اور ان کا گھر کا نام ببر شیر تھا۔
جب بھی شموویل کے بھائی بہن ان کے والد سے ناراض ہوجاتے تو وہ ان سے مذاق کرتے اور ان کا موڈ درست کردیتے۔
حملے کے روز ان کی شرٹ کی جیب سے 20 روپے کے دو نوٹس برآمد کیے گئے جس سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں سینے میں گولیاں لگی تھیں۔ ان کے والد نے یہ نوٹ یادگار کے طور پر اپنے پاس رکھ لیے ہیں۔
والدین: جمال ناصر اور نائلہ
بھائی/بہن: 25 سالہ فضل ناصر، 23 سالہ شہاب ناصر، 21 سالہ سیماب ناصر، 19 سالہ زبیر ناصر ، 17 سالہ شفی ناصر۔
شایان مذہبی ذہنیت رکھتے تھے جن کی کوشش تھی کہ ان کے تمام دوست باقاعدگی سے نماز ادا کریں۔ وہ اکثر اپنی والدہ سے کہتے تھے کہ رات کا کھانا نہ بنائیں تاکہ ان کے والد سستی کی وجہ سے عشاء کی نماز نہ چھوڑیں۔
وہ کرکٹ کھیلنے کا بھی شوق رکھتے تھے تاہم ان کا حقیقی شوق فلکیات میں تھا۔
والدین: مرحوم ظاہر شاہاور بی بی آمنہ
بہن/بھائی: شاہ فہد (27)، بی بی فاطمہ (25)، شمس القمر (24)، بی بی رابعہ (19)، فاروق دیدار (18)، بی بی عظمی (16)، 13 سالہ عرش ظاہر
اپنے بڑے بہن بھائیوں کی طرح آفاق بھی ایک ڈاکٹر بننے کے خواہش مند تھے۔
والدہ اور بہن بھائیوں کے انتہائی قریب آفاق زیادہ سوشل نہیں تھے اور گھر پر رہتے ہوئے کمپیوٹر پر گیمز کھیلنا پسند کرتے۔
آفاق کی والدہ انہیں گھر کی ’ریڑھ کی ہڈی‘ قرار دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ سانحہ والے دن سکول جانے سے قبل وہ بہت خوش تھے۔
آفاق کے بہن بھائی کہتے ہیں کہ ان کے جانے سے پیدا ہونے والا خلا کبھی پر نہیں ہو گا۔
والدین : رضوان اسلم اور علینہ رضوان
بہن بھائی: 14 سالہ مہرین اسلم، 9 سالہ احرام سراج ، 5 ماہ کی زوریا
مہیر ایک سادہ لڑکا تھا جسے باہر گھومنے کا بہت شوق تھا۔
اس کا خاندان اب بھی یاد کرتا ہے کہ وہ کیسے پشاور سے باہر فطرت کے قریب جانے یا دریا میں تیراکی کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیتا تھا۔
مہیر کو کمپیوٹر انجنیئرنگ میں بہت زیادہ دلچسپی تھی اور اسکول سے نکلنے کے بعد وہ اسے بطور پیشہ اپنانا چاہتا تھا۔
والدین: محمد اسلم قریشی اور مرحومہ زاہدہ اسلم قریشی
بھائی بہن: سمارا اسلم قریشی، عارفہ اسلم قریشی، اقرا اسلم قریشی
مبین کے والد اسے یاد کرتے ہوئے کہتے کہ ایک دن میں نے مبین کو اسکول چھوڑتے وقت راستے میں اس سے کہا کہ وہ دعا کرے کہ جلد میری آرمی کمانڈر کے رینک پر ترقی ہوجائے، لیکن جواب میں اس کا کہنا تھا کہ یہ اتنا آسان نہیں ہے۔
مبین اپنے والد سے بہت قریب تھا حالانکہ وہ 10 سال اپنے اہلخانہ سے دور بھی رہے تھے۔ 2013 میں مبین کی والدہ کے انتقال کے بعد وہ اور اس کے والد قریبی دوست بن گئے تھے۔
والدین: محمد حسین، دلشاد بی بی
بہن بھائی: 12 سالہ محمد عبداللہ، 5 سالہ محمد ابوبکر
تین بھائیوں میں سب سے بڑے محمد علی رحمٰن ایک ذہین طالب علم تھے، جنھیں انگریزی الفاظ میں مہارت حاصل تھی اورانھوں نے الفاظ کے کئی مقابلے جیت رکھے تھے۔
محمدعلی رحمٰن فارغ وقت میں کرکٹ کھیلتے یا دیکھتے تھے۔
علی رحمٰن کے والد کے مطابق آرمی پبلک اسکول پر حملے سے ایک دن قبل ان کے بیٹے نے نوٹ بک خریدنے کے لیے پیسے مانگے، جو انھوں نے علی رحمٰن کو رات کو دیئے اور صبح اسکول کے لیے گھر سے نکلتے ہوئے علی نے اپنے والد کا شکریہ بھی ادا کیا۔
والدین : نائیک صوبیدار طارق محمود اور سفینہ طارق
بہنیں : 15 سالہ امامہ طارق، 12 سالہ ثناءطارق
تین بھائی بہنوں میں سے سب بڑا اور اکلوتا بیٹا اسامہ اپنے والدین کے لیے بہت خاص تھا۔ اس کے والد بتاتے ہیں کہ وہ ایک ہینڈسم لڑکا تھا۔
اسامہ بڑے ہونے پر ایک فوجی افسر بننا چاہتا تھا۔ اسے ان افراد کی بہت زیادہ فکر تھی جو فوجی آپریشنز کے نتیجے میں بے گھر ہوگئے تھے اور وہ ان کی بحالی نو کے لیے کام کرنا چاہتا تھا۔
والدین : حولدار عبدالقیوم اور ثمینہ بی بی
بہنیں : 13 سالہ ثمن قیوم، 11 سالہ سدرہ قیوم، 7 سالہ عائشہ قیوم، 4 سالہ فاطمہ قیوم
ڈاکٹر بننے کا خواہشمند ذیشان علی بہت ذہین اور ذمہ دار بچہ تھا۔ گھر کا سب سے بڑا بچہ ہونے کے ساتھ ذیشان اکلوتا بھائی بھی تھا جو بہنوں پر فدا تھا۔ ایک خیال رکھنے والا خوش باش بھائی جو اکثر اپنی بہنوں کو موٹرسائیکل پر گھمانے لے جاتا اور انہیں ٹافیاں خرید کر دیتا۔
والد کا ٹرانسفر پشاور ہونے کے بعد ذیشان نے اے پی ایس پشاور میں پڑھنا شروع کیا تھا جو کہ اے پی ایس سانحے سے چند ہفتے پہلے کی بات تھی۔ مگر اس مختصر وقت میں وہ اپنے اساتذہ کے پسندیدہ طالبعلموں میں سے ایک بننے میں کامیاب ہوگیا تھا۔
والدین: حوالدار محمد شفیق اور بسم اللہ جان
بہن/بھائی: 12 سالہ یاسر شفیق، 9 سالہ دانیال شفیق اور 3 سالہ معصومہ شفیق
2004 سے آرمی پبلک سکول میں زیر تعلیم ذیشان ایک ہونہار طالب علم تھے جو ہمیشہ کلاس میں ٹاپ آتے۔
ایک اچھے ایتھلیٹ ، فٹبال کھیلنے والے ذیشان ہوم ورک کرنے میں اپنے بہن بھائیوں کی مدد کرتے۔
انہیں جانور پالنے کا شوق تھا اور کبوتر انہیں بہت پسند تھے۔
By Dawn.com